آسیب زدہ اسکائیپ

شمشاد

لائبریرین
یہ جتنے بھی آسیب زدہ فون اور کمپیوٹر ہیں، سب مجھے بھجوا دیں۔ مجھے ان نمٹنا آتا ہے، بلکہ کئی ایک تو میری منتیں کر کے اپنی جان چھڑا کر گئے ہیں۔
 

عمر سیف

محفلین

سلمان حمید

محفلین
یہ جتنے بھی آسیب زدہ فون اور کمپیوٹر ہیں، سب مجھے بھجوا دیں۔ مجھے ان نمٹنا آتا ہے، بلکہ کئی ایک تو میری منتیں کر کے اپنی جان چھڑا کر گئے ہیں۔

اب کہیں کہیں سے مجھے بھی یقین ہو رہا ہے ماہی احمد کی بات پر۔ ہو نا ہو یہ آسیب آپ کا ہی بھیجا ہوا ہے :(
 
محمد یعقوب آسی بھائی آپ میری کسی تحریر پر تبصرہ یا میری اصلاح نہیں کرتے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ میں بھی ایک دن بڑا لکھاری بنوں؟ :(
ہم م م ۔۔ سوچنے کی بات ہے صاحب۔ اس فقیر کے تبصرے سے تو ’’بڑے لکھاری‘‘ بدکتے ہیں۔ شاید فقیری کی لغت میں ویسے الفاظ نہیں ہوتے جو ان کو خوش آویں ۔

ویسے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میری خاموشی محض اتفاق ہو! کیا خیال ہے؟ دیکھتا ہوں صاحب۔ اگر کچھ خوش آمدنی کلمات ہو سکے تو عرض کر دوں گا، نہیں تو نعرۂ مستانہ ہی سہی۔
 

عمر سیف

محفلین
رہی والا مشورہ لے دیں۔ اگر اچھا لگا اور ضرورت ہوئی تو رہا والا بھی پوچھ لوں گا۔
جناب ہم نے تو رہا والا مشورہ لیا تھا ۔۔۔ غلطی سی کامیاب رہا ۔۔ مریض کا صحیح علاج تو طبیب ہی بہتر جانتا ہے ۔۔ اب قیصرانی بھائی رہا والا علاج کرتے ہیں یا رہی والا ۔۔۔ یہ تو وہی جانے ۔۔۔ :grin:
 
رات کے گیارہ بجے تھے شاید، یا کچھ منٹ اوپر یا نیچے ہوں گے۔ ٹھیک ٹھیک اس لیے نہیں بتا سکتا کہ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا، میرے ایک بازو پر ارحم (سوا دو سالہ بیٹا) لیٹا ہوا تھا اور دوسرا بازو اس کے گرد حمائل تھا۔ موبائیل تین یا چار گز کے فاصلے پر ایک میز کے اوپر پڑا چارج ہو رہا تھا۔ اور میں ارحم کو دس بجے لے کر لیٹا تھا تو اندازے کے مطابق ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب میں اپنے بیٹے کو ہولے ہولے تھپک رہا ہوتا ہوں بلکہ یوں کہیے کہ ایک گھنٹے سے تھپک تھپک کر تھک چکا ہوتا ہوں اور اس کی آنکھیں ایسے کھلی ہوتی ہیں جیسے وہ گھپ اندھیرے میں چھت یا دیوار پر کسی چیز کو گھور رہا ہو۔ شاید اپنی ماما کی طرح کسی مکڑی کوخوفزدہ آنکھوں سے گھور گھور کر مار دینا چاہتا ہو (واضح رہے کہ اس کی ماما کے لیے مکڑی کو آنکھوں سے گھور گھور کر مار دینے کی اصطلاح اس لیے استعمال کی گئی ہے کیونکہ اس وقت محترمہ کی آواز خوف کے مارے بند ہو چکی ہوتی ہے اور جسم کانپ کانپ کر مزید ہلنے جلنے کی طاقت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے) لیکن میں نے کئی بار ارحم کی نظروں کا تعاقب کیا ہے، وہاں دیوار پر کچھ نہیں ہوتا۔
کمرے کی دیوار پر آویزاں گھڑی کی ٹک ٹک ماحول کو مزید پر اسرار بنا رہی تھی، ایسے میں گھبرا کر میں نے ارحم کی آنکھوں پر تقریباً انیسویں بار ہاتھ رکھ دیے اور ہلکی سی آواز میں اسے ڈانٹ کر کہا کہ ارحم، آنکھیں بند کر لو بیٹا تو اس نے آنکھیں موند لیں، لیکن ہمیشہ کی طرح کچھ سیکنڈز کے بعد دوبارہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔
اتنے میں مجھے لگا جیسے ارحم کی آنکھیں بوجھل ہو رہی ہیں۔ میرا دل خوشی سے باغ باغ ہونے لگا۔ یہ رات کا وہ پہر ہوتا ہے جب مجھے سب سے زیادہ خدشہ اپنے موبائیل کے بجنے کا ہوتا ہے۔ موبائیل پڑا بھی میز پر تھا جس کے لرزنے (وایئبریٹ کرنے) کا شور بھی کافی ہونا تھا۔ اسی اثنا میں ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا۔ موبائیل سے کسی کو کال ملنے لگی، ٹون، ٹون کی دوسری آواز پر ارحم کے حساس کان کھڑے ہو گئے اور اس نے موبائیل کی طرف انگلی اٹھا کر اوں کی آواز نکالی، میں نے اسے بازو میں بھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کی ماما کی طرف دیکھنے لگا کہ شاید اس نے کال ملائی ہو مگر نہیں، وہ تو نیند کی وادیوں میں تھی اور پھر چوتھی ٹون کے بعد میرے لاہور والے کزن نے اسکائیپ پر کال اٹھا لی۔ وہ ابھی طالبعلم ہے جو رات بھر جاگتا ہے اور دن بھر سوتا ہے۔
ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو
شاید چار بار ہی ہیلو کہا اس نے اور کال بند کر دی، پھر کچھ سیکنڈز بعد اس کا میسیج آنے پر موبائیل ہلکا سا لرزا۔ خیر آدھ گھنٹے بعد جب میں ارحم کے سو جانے کے بعد بستر سے اٹھا تو اپنے کزن کو (دوبارہ) کال کی لیکن وہ شاید سو چکا تھا۔
اگلے دن یہ واقعہ اپنی بیگم کو بتایا تو وہ یکدم چیخی کہ ایسا ایک بار اس کے ساتھ بھی ہو چکا ہے اور میں اس وقت دوسرے کمرے میں تھا اور میرا موبائیل اسی میز پر پڑا تھا۔ اور اس وقت کال میری بھانجی کو مل گئی تھی اور اس نے اٹھا بھی لی تھی اور بیگم نے مجھے لا کے فون دے دیا تھا لیکن بتانا بھول گئی کہ کال خود ہی مل گئی، وہ سمجھی تھی ک شاید پاس کھیلتے ارحم نے ہاتھ مار دیا ہو گا۔ میری بیگم نے کانپتی ہوئی آواز میں مجھے بتایا کہ مان اس دن بھی موبائیل اسی میز پر پڑا تھا اور ساتھ والی کھڑکی کھلی تھی۔
میں نے اس کی طرف دیکھا اور آواز کو بھاری کر کے کہا، "یعنی کہ کھلی ہوئی کھڑکی سے کسی کا کٹا ہوا ہاتھ آیا ہو گا اندر اور۔۔۔ ؟" اور دھپ کی آواز کے بعد میں اپنا کندھا سہلاتے ہوئے اپنی بیگم کو منانے میں لگ گیا۔

کیا کسی اور کے پاس ایسا آسیب زدہ اسکائیپ ہے؟ یا کوئی ایسے کسی بابے کو جانتا ہو جس سے میں اپنے اسکائیپ کی ایک دم کال ملنے کے لیےایک دم کروا لوں؟

بلا تمہید ۔۔ میں نے یہاں کچھ الفاظ کو سرخ رنگ دے دیا ہے۔
۔۔ کچھ منٹ اوپر یا نیچے ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ ٹکڑا غیر ضروری ہے۔
۔۔ گھپ اندھیرا تھا ۔۔ تو پھر بچے کی کھلی آنکھیں کیوں کر دکھائی دے رہی تھیں۔ لفظ گھپ ہٹا دیجئے۔ اندھیرا تھا!
۔۔ بچے کی عمر کا ذکر قوسین کی بجائے رواں جملے میں کیجئے، اور سوا دو ضروری نہیں۔ میرا دو سوا دو سال کا بچہ ارحم ۔۔ ۔۔ ۔۔
۔۔ قوسین میں دی گئی وضاحت میرا خیال ہے ایک ہلکی پھلکی تحریر کو بوجھل بنا رہی ہے۔ دوسری بات مزاح کا مس صرف اسی جملے میں آیا ہے، اس سے یہ جملہ اپنے ماحول میں اجنبی لگتا ہے۔ شگفتگی کا عنصر پوری تحریر میں یکساں ہو تو اچھا لگتا ہے۔
۔۔ جب لرزنے کا شور کہہ دیا تو کافی ہے قوسینی وضاحت ضروری نہیں۔ ’’کافی‘‘ کو یار لوگ اکثر ’’خاصا‘‘ کے معانی میں لاتے ہیں۔ ٹھیک، ناٹھیک سے قطع نظرایسا کرنا محاورے کے خلاف ہے۔ ’’کافی‘‘ کے لئے کوئی کہی ان کہی شرط ہوا کرتی ہے۔ حسبِ موقع خاصا خاصے خاصی لکھئے۔ کام کو آسان کیجئے۔
۔۔ جب کوئی اور بیگم منظر میں موجود ہی نہیں تو ’’میری، اپنی‘‘ تکلف محض ہے۔ اگر کسی تقریب وغیرہ کی بات ہو پانچ سات بیگمات مذکور ہوں تو ٹھیک ہے : میری نظرین اپنی بیگم کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ وغیرہ۔
۔۔ مان اگر یہاں وقائع نگار کا نِک نیم ہے تو اس کے آگے علامتِ تخاطب ( ! ) لگا دیجئے۔
۔۔ طالب علم ۔۔ الگ الگ لکھنا بہتر ہے۔ خاص طور پرآج یعنی کمپیوٹر کے زمانے میں ہر لفظ کو الگ الگ لکھنا کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ اور سپیس کیریکٹر کی اہمیت تو سب جانتے ہیں۔ خطاطی کی بات اور ہے، وہاں بصری فن کاری اہم تر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اچھا سنیپ شاٹ ہے۔ لفظیات بھی مناسب ہیں۔
سکائپ کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں ہے سو آپ نے جو لکھا اسی کو درست مان لیا ہے۔
اور اس میں قاری ’’بدکتا‘‘ بھی نہیں! لکھاری میرے لکھے پر کتنا بدکا ہے؟ یہ لکھاری کو پتہ ہو گا۔ :bee:
 
Top