آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

فہد مقصود

محفلین
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے قرآنی آیات پڑھ کر دم کردہ پانی کو حاملہ کی ناف کے نیچے کے حصے پر چھڑکنے کی اجازت دی ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے حاملہ کو تعویذ باندھنے کا کہا ہے۔
Screenshot-20200404-215256.png

علم کے بحرِ بے کنار کہلانے والی ان ہستیوں اور دیگر اسلافِ امت کو کیا پتہ تھا کہ کئی سو سال بعد ایک ایسا دیدہ ور پیدا ہو گا جو محدث فورم وغیرہ سے کم علمی یا غلط فہمی پر مبنی اعتراضات کاپی کرے گا اور اردو محفل میں پیسٹ کرے گا۔
اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے، آمین۔

واہ بھائی جان کیا دلیل لائیں ہیں آپ!!! یعنی اگر کوئی قرانی آیت پر ٹانگ رکھ دے کسی بھی غرض سے چاہے وہ شفا پانے کی ہی نیت کیوں نہ ہو تو کیا یہ جائز ہوگا؟؟؟ کیا اس میں آپ کو کوئی بے ادبی نظر نہیں آرہی ہے؟؟؟ کیا آپ کو واقعی معیوب نہیں لگتا ہے ٹانگ پر آیت باندھنا؟؟؟
دوسری بات پانی پر قرآنی آیات دم کر کے پینے میں کوئی حرج مجھے محسوس نہیں ہوتا ہے لیکن بے ادبی کے پیشِ نظر میں چھڑکنے سے باز رہوں گا۔ اور مجھے چونکہ یہ درست معلوم نہیں ہوتا ہے تو چاہے ابنِ تیمیہ کہیں یا کوئی اور میں اس کی تائید ہرگز نہیں کروں گا!
اس کا جواب ضرور دیجئے گا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ درست ہے کہ آیتِ قرآنی لکھ کر ٹانگ پر باندھ لی جائے؟؟؟
 

زاہد لطیف

محفلین
جو محدث فورم وغیرہ سے کم علمی یا غلط فہمی پر مبنی اعتراضات کاپی کرے گا اور اردو محفل میں پیسٹ کرے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کاپی تو سیکھنے یا آگاہی کی غرض سے کوئی بھی شخص کہیں سے بھی کر سکتا ہے، انٹرنیٹ کی دنیا میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ بات صحیح ہے یا غلط اور آیا وہ کاپی پلجرزم کے زمرے میں تو نہیں آتی۔ اس طرح یوٹیوب اور ٹوئیٹر کے لنک بھی تو شیئر ہوتے رہتے ہیں وہ کاپی کی ہی ایک شکل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان خیالات یا ان باتوں میں کتنی جان ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ آپ خود بھی تو اپنے پیشہ ور علماء کی رائے کاپی پیسٹ کرتے رہتے ہیں، اگر وہ آپ کے لیے صحیح عمل ہے تو پھر دوسروں پہ اعتراض کرنے کا مقصد؟ کیا آپ کے لیے بھی یہ اتنا ہی درست نہیں کہ آپ بھی کم علمی اور غلط فہمی پر مبنی علمائی خیالات کاپی پیسٹ کرتے رہتے ہیں؟
بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ اگر ہم کریں یا ہمارا غلام یا مقتدی کرے تو صحیح اور اگر کوئی اختلاف کرنے والا کرے تو اعتراض! :)
 
جہاں ہر دوسرے تیسرے آفس میں عورت کا استحصال ہوتا ہو۔
یہ مسئلہ بھی معاشرے کے تقریباً سبھی مسئلوں کی طرح مردوں کی وجہ سے ہے، اگر انھیں گھروں تک محدود کیا جا سکے تو اس مسئلے کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔
کیا آپ کے خیال میں کوئی ایسا آفس نہیں، کوئی ایسی کام کی جگہ نہیں، جس پر گھرانے کے کسی فرد کو اعتراض نہ ہو سکتا ہو۔
جہاں تک میرا خیال ہے خواتین خود بھی اپنے لیے ایسی جگہوں کا ہی انتخاب کرنا چاہیں گی جہاں ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہو ۔ آپ یقیناً خواتین کو ناقص العقل تو نہیں سمجھتے۔
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
کہ کیا ایسی جگہوں پر جاب کے لیے کوئی فرد اپنے گھرانے کی خواتین کو اجازت دے سکتا ہے؟
کسی بھی کام کو باہمی صلاح و مشورے سے کرنا ایک الگ بات ہے لیکن اجازت لینے یا دینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خواتین اتنی با شعور نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے لیے بہتر ورک پلیس کا انتخاب کر سکیں۔
 

زاہد لطیف

محفلین
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے قرآنی آیات پڑھ کر دم کردہ پانی کو حاملہ کی ناف کے نیچے کے حصے پر چھڑکنے کی اجازت دی ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے حاملہ کو تعویذ باندھنے کا کہا ہے۔
Screenshot-20200404-215256.png

علم کے بحرِ بے کنار کہلانے والی ان ہستیوں اور دیگر اسلافِ امت کو کیا پتہ تھا کہ کئی سو سال بعد ایک ایسا دیدہ ور پیدا ہو گا جو محدث فورم وغیرہ سے کم علمی یا غلط فہمی پر مبنی اعتراضات کاپی کرے گا اور اردو محفل میں پیسٹ کرے گا۔
اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے، آمین۔
اب یہ بات کوئی بھی صاحب کریں بشمول علامہ ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ اور اشرف علی تھانوی صاحب ہمیں یہ دیکھنا کہ آیا ایسا کوئی طریقہ کار حضور نے وضع کیا اور آیا یہ اخلاقی طور پر درست ہے؟ یہ تو سن کر ہی بندے کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ اسے 'علماء' کی گنجائش کہہ رہے ہیں؟ توبہ میرے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔
یاد رکھیے کوئی بھی عالم یا دنیا میں رہنے والا شخص 'علم میں بحر بے کنار' نہیں ہے اور بحر بے کنار اس معاملے میں صرف رب کی ہستی ہے۔ انسان کا علم محدود ہے چاہے اس کا علمی یا دنیاوی رتبہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ کسی کا علمی قد چاہے جتنا بھی بڑا ہو غلطی یا تنقید سے مبرا نہیں ہے!
اللہ تعالی واقعی اس امت پر رحم فرمائے اور ان 'علماء' کی باتوں کو پوجنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

فہد مقصود

محفلین
شرکاء محفل نوٹ فرما لیں جواب کیا آیا ہے! غلط فہمی اور کم علمی پر باتیں پھیلائی جا رہی ہیں! یہی جواب آتا ہے ان علماء کے پیروکاروں کا نہ کہ اپنے علماء کی غلطیوں کی نشاندھی کریں ان کو سمجھائیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے!!!
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
جو مرد حضرات اس بات کو غیر شرعی خیال کرتے ہیں کہ عورت گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر ملازمت کرے تو اس کا بس ایک ہی حل ہے کہ وہ پڑھی لکھی لڑکی سے شادی ہی نہ کریں۔
سمپل از دیٹ۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
رہا بچوں کی تربیت کا سوال، تو کم تعلیم یافتہ خواتین بھی نہایت اچھی مائیں ثابت ہو سکتی ہیں۔ کیا پہلے وقتوں کی غیر تعلیم یافتہ خواتین بچوں کی تربیت احسن انداز میں نہیں کرتی تھیں۔ وہ امور خانہ داری میں بھی انتہائی ماہر ہوا کرتی تھیں۔ دستکاری اور سلائی کڑھائی میں بھی خوب تھیں۔ اگر کوئی مشکل وقت آن پڑتا تو یہی ہنر ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی ثابت ہوتے تھے۔وہ گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے انہی” شرعی “ ذرائع کو اختیار کر کے اپنی گزر اوقات کیا کرتی تھیں۔ اطاعت گزاری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ مرد گھر آتا تو بچوں سمیت سب دبک کر بیٹھ جاتے۔ مجال ہے شوہر کی کسی بات کی ذرا بھی حکم عدولی کرتیں۔
لہذا جو مرد حضرات بالکل ایسی ہی خانگی زندگی کے خواہاں ہیں اور اس بات کے سرے سے قائل ہی نہیں کہ کسی تعلیم یافتہ اور باشعور عورت کو اتنا سا بھی حق دیا جائے کہ وہ اپنے متعلق خود فیصلہ کر سکے کہ آیا اسے شادی کے بعد جاب کرنی چاہیے یا نہیں، تو ایسے لوگوں کو مفت مشورہ ہے کہ فی الفور پڑھی لکھی لڑکیوں کے خواب دیکھنا ترک کر دیں ۔ شادی کے بعد مذہب کے نام پر بے جا پابندیاں لگانے اور کسی کی زندگی کے جبراً مالک بننے سے لاکھ بہتر ہے کہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق ہی لائف پارٹنر کا انتخاب کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔
 

فہد مقصود

محفلین
حیا تو عورت کا زیور ہے۔ مرد کیسے بے حیا ہو سکتا ہے۔

بہن جی میں تو مشورہ دوں گا کہ پاکستانی عورتیں سیلف ڈیفینس کی ٹریننگ ضرور لیں۔ معاشرے کے بدلنے کی امید بالکل نہیں رکھیں۔ جہاں کوئی مردود بدتمیزی کرے دو ہاتھ ماریں! یہی علاج رہ گیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آفسز میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اس لئے خواتین کام کاج نہ کریں۔ گھر میں بند رہیں۔ یہ کیا دلیل؟ ان مردوں کو ٹھیک کیوں نہیں کرتے جو خواتین کا استحصال کرتے ہیں؟
معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وہ ربط دیکھنے کی زحمت نہ فرمائی جو ہمارے مراسلے میں موجود ہے۔ :) وگرنہ اگلا نکتہ آپ شاید سامنے نہ لاتے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
اچھا حل نکالا ہے جی۔ استحصال کرنے والوں کو قابو نہ کرو۔ عورت کے ہاتھ مضبوط نہ کرو کہ استحصال کرنے والوں کا گریبان پکڑ سکے۔ الٹا ان استحصال کرنے والوں کو بہانے کے طور پر استعمال کر تے ہوئے عورت کو مزید پابند کر کے اس کا مزید استحصال کرو، اور اس کو مزید کمزور بناؤ تاکہ وہ ایک با عزت اور خود مختار زندگی کے حق کو تو بھول ہی جائے۔ جینیس!
سر! یہ آپ کا گمان ہے۔ ہمارے مراسلے میں ایسا کچھ نہ ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللّٰہ نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے قرآنی آیات پڑھ کر دم کردہ پانی کو حاملہ کی ناف کے نیچے کے حصے پر چھڑکنے کی اجازت دی ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ دہلوی نے بھی سہولتِ ولادت کے لیے حاملہ کو تعویذ باندھنے کا کہا ہے۔
یعنی اگر علما کرام دین کے نام پر مضحکہ خیز حرکات کریں تو وہ سب جائز اور عین اسلام ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
چند باتیں:

خواتین کا استحصال غلط ہے اور اس کا سدباب ضروری ہے۔

خواتین کو کام کرنے سے روکنا اس کا صحیح طریقہ نہیں۔

اگر موجودہ استحصالی حالات میں کوئی خاتون کام نہیں کرنا چاہتی تو یہ اس کا فیصلہ ہے۔ یہ اختیار اسی کے پاس ہونا چاہیئے نہ کہ مردوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔
آپ کی بات درست ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی صاحب آپ کی فراہم کردہ ویڈیو کے شروع کے ہی سیکنڈز میں یہ سننے کو ملا "سر میں بہت مجبور ہوں"باقی بات سمجھنا کوئی ایسی بھی مشکل نہیں ہے۔ پیٹ کی آگ بہت ظالم ہوتی ہے! بھوکا مرنا کسی صورت آسان کام نہیں ہے!
یہ معاشرہ خواتین کا استحصال کرتا ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔ جو خواتین اس استحصالی معاشرے میں اچھی جاب تلاش کر لیں تو ان کی خوش قسمتی ہے۔ بقیہ کے لیے اچھا ماحول پیدا کرنا اور اس حوالے سے اصلاح احوال کرنا از بس لازم ہے۔ سر عام کا یہ مذکورہ پروگرام ہمارے دل کی آواز سمجھیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ مسئلہ بھی معاشرے کے تقریباً سبھی مسئلوں کی طرح مردوں کی وجہ سے ہے، اگر انھیں گھروں تک محدود کیا جا سکے تو اس مسئلے کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔

جہاں تک میرا خیال ہے خواتین خود بھی اپنے لیے ایسی جگہوں کا ہی انتخاب کرنا چاہیں گی جہاں ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہو ۔ آپ یقیناً خواتین کو ناقص العقل تو نہیں سمجھتے۔
پہلی بات کا جواب ہاں میں ہے۔ :) یقینی طور پر، یہ مسائل مردوں کی وجہ سے ہیں۔ جہاں تک دوسری بات ہے تو شاید آپ اعتراض والی بات کو اوور لے گئے! :) اعتراض کرنا کوئی ایسی بری بات نہیں تاہم کسی کو بزور جبر کسی جائز کام سے روک دینا غلط رویہ ہے۔ :) ان دو باتوں میں فرق ہے۔ ہم نے مرد اور عورت کی تخصیص کی ہی نہیں ہے۔ آپ مراسلہ پھر سے دیکھ لیجیے پیارے بھائی! :)
 

محمد سعد

محفلین
اب یہ بات کوئی بھی صاحب کریں بشمول علامہ ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ اور اشرف علی تھانوی صاحب ہمیں یہ دیکھنا کہ آیا ایسا کوئی طریقہ کار حضور نے وضع کیا اور آیا یہ اخلاقی طور پر درست ہے؟ یہ تو سن کر ہی بندے کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ اسے 'علماء' کی گنجائش کہہ رہے ہیں؟ توبہ میرے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔
یعنی اگر علما کرام دین کے نام پر مضحکہ خیز حرکات کریں تو وہ سب جائز اور عین اسلام ہے؟
جی بالکل۔ اس میں کسی قسم کا بھی دین کا مذاق نہیں ہے۔ دین کے مذاق کا لیبل تب ہی لگتا ہے جب جب کوئی ان لوگوں کے ساتھ اختلاف کر جائے اور ان کی ذات کو اسلام ماننے کا ان کا مطالبہ رد کر دے۔
 
Top