آج کی رات ہم پہ بھاری ہے

من

محفلین
آج کی رات ہم پہ بھاری ہے
"بے قراری سی بے قراری ہے"

چاند بے نور ماند سا کیوں ہے
کیسی وحشت یہ اس پہ طاری ہے

زندگی یہ تمہارے نام ہوئ
کل جو اپنی تھی اب تمہاری ہے

میری آنکھیں جو جھلملاتی ہیں
ان میں اشکوں کی ایک کیاری ہے

ہجر سے ہم نے دوستی کر لی
وصل کی رات کیا گزاری ہے

جو مٹاے سے مٹ نہیں سکتی
کاری اک ضرب اسنے ماری ہے

نام ہونٹوں پہ لا نہیں سکتے
کچھ تو رشتوں کی پاسداری ہے

یاد کے بے بہا سمندر ہیں
جن سے زخموں کی آبیاری ہے

کیسے کیسے نشان چھوڑ گئ
وقت کی تیز دھار آری ہے

بات بے بات دل تڑختا ہے
ٹوٹنے کی اسے بیماری ہے

نبض چاہ کر بھی رک نہیں سکتی
کیسی سانسوں کی یہ لاچاری یے

بین کرتی ہے پھر بھی جیتی ہے
زیست کتنی یہاں بیچاری ہے

اک فسانہ ہے مَنؔ یہ جیون بھی
اک کہانی ہے جو کہ جاری ہے

مَن
 
وا جی وا۔
گو ہمیں شاعری کا ککه نہیں پتہ لیکن قافیے چنگے جڑے ہوئے دکھ رہے۔
جبکہ عنوان دیکھ کر ہم نے یہ خیال کیا کہ کسی نے غلطی سے دو رضائیاں اوپر لے لی ہیں اس لیےاسے رات بهاری بهاری لگ رہی ہونی۔:battingeyelashes:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فرخ جی پلیز بتاییے گا کون کون سے شعر میں وزن گر رہا
بیماری لاچاری اوربیچاری ، ان الفاظ کو فعولن کے وزن کے وزن پر استعمال کر لیا گیا ہے ۔انہیں مفعولن کے وزن پر ہونا چاہیے۔ اس لیے اوزان پر شک گزر رہا ہے ۔
(نیز تڑخنا بھی عجیب لفظ استعمال کیا گیا ہے اردو میں توشاید چٹخنا ہوتا ہے ) ۔
غزل البتہ واقعی اچھی ہے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ جی پلیز بتاییے گا کون کون سے شعر میں وزن گر رہا
میری آنکھیں جو جھلملاتی ہیں​
ان میں اشکوں کی ایک کیاری ہے​
مندرجہ بالا شعر میں ایک کی بجائے اَک ہونا چاہیے۔
نیز جیسے سید عاطف علی صاحب نے اشارہ کیا کہ بیماری کو بماری، لاچاری کو لچاری اور بیچاری کو بچاری پڑھیں تو مصرعے وزن میں آتے ہیں۔
 

شکیب

محفلین
جو مٹاے سے مٹ نہیں سکتی
کاری اک ضرب اسنے ماری ہے
دوسرے مصرع میں بہتری لائیں۔ روانی مجروح محسوس ہورہی ہے۔
نبض چاہ کر بھی رک نہیں سکتی
اسے کس طرح باندھا ہے سمجھ میں نہیں آیا۔
لاچاری، بیچاری وغیرہ کی طرف بھائیوں نے پہلے ہی نشاندہی کر دی ہے۔
مجموعی طور پر کلام پسند آیا۔خصوصا مقطع۔
 
Top