اسکین دستیاب آثار الصنادید (اسکین صفحات: حصہ دوم)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ کام ہو چکا یا ابھی ہونا باقی ہے میں نے 10 یا 11 کو پاکستان جانا ہے اس وقت تک میرے پاس ٹائم ہے آج کل کام سے چھٹی ہے میری اگر کوئی ٹائپنگ کا کام ہے تو مجھے جلدی سے بتا دیں تاکہ پاکستان جانے سے پہلے کر جاؤں وہاں وقت کم ہی ملے گا
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی تو یہ کام شروع ہی نہیں کیا۔ تم شروع کر دو اور بتا دو کہ کون سے صفحے کرو گے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کام سامنے تو آ جائے میں تین چار دن فری ہی ہوں اس لیے کہہ رہا تھا کے کچھ نا کچھ کام کر ہی لوں اور انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام کروا لوں
 

شمشاد

لائبریرین
اردو محفل لائبریری میں ٹیگ کا کھیل شروع ہے۔ اور ویسے بھی تو اب تین دن رہ گئے تمہارے سفر کرنے میں، تم سفر کی تیاری کرو۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۴۷

مسجد بھی چونے پتھر سے بنی ہوئی ہے لیکن اب بہت ٹوٹ گئی ہے۔

درگاہ مولانا جمالی​
نواح قطب صاحب مین یہ بہت مشہور درگاہ ہے شیخ فضل اللہ معروف جلال خان نے قریب ۹۳۵؁ ہجری مطابق ۱۵۲۸؁عیسوی کے اپنے جیتے جی یہ کوٹھری بنائی تھی اور آزادون کی طرح اسمین رہتے تھے۔ جس ۹۴۲ ہجری مطابق ۱۵۳۵ عیسوی کے انکا انتقال ہوا تو اسی حجری میں مدفون ہوئے۔ بابر اور ہمایون اور سلطان سکندر کے عہد کے بڑے نامی شاعروں مین سے ہین اور جمالی اپنا تخلص کرتے تھے۔ اسی سبب سے درگاہ مولونا جمالی مشہور ہے ۔ یہ حجرہ بہت اچھا چونے کا بنا ہوا ہے اور تھوڑی تھوڑی چینی کاری بھی کی ہوئی ہے۔ حجرے کے اندر چونے کی منبت کاری میں دو غزلین انھین کی کہی ہوئی کھدی ہوئی ہین۔​
مسجد درگاہ مولانا جمالی​
مولانا جمالی کی درگاہ کے پاس یہ مسجد ہے بہت بڑی اور نہایت شان دار چونے اور پتھر سے بنی ہوئی اس مسجد کو بھی مولانا جمالی نے اپنے جیتے جی قریب ۹۳۵ ہجری مطابق ۱۵۲۸ عیسوی کے بنایا تھا۔ جس جگہ یہ مسجد واقع ہے پہلے آبادی قطب صاحب کی اسی مقام پر تھی چنانچہ اب بھی اس جگہ پُرانی بستی کے کھنڈر پڑے وہئے ہین بلکہ جس زمانے میں پتھورا نے یہان قلعہ بنایا اوس زمانے مین بھی آبادی اسی مقام پر تھی۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۴۸
نیلی چھتری​
سلیم گڈھ کے نیچے دریا کے کنارے نکمبود کے گھاٹ پر ایک چھوٹی سے بارہ دری ہے۔ بنگلے نما اور اوسپر چینی کاری کا نیلے رنگ مین کام کیا ہوا ہے اس سبب سے اوسکو نیلی چھتری کہتے ہین۔ ۹۳۹ ہجری مطابق ۱۵۳۲ عیسوی کے ہمایون بادشاہ نے دریا کی سیر دیکھنے کو یہ چھتری بنائی اگرچہ ہندو اس چھتری کو پانڈون کے وقت کی بتاتے ہین اور گو یہ صحیح نہو مگر اتنی بات مسلم ہے کہ اس چھتری پر جو چینی کاری کی اینٹین لگی ہوئی ہین وہ اور کسی ہندؤن کی جگہ سے اوکھاڑ کر اسمین لگائی ہین کیونکہ اون اینٹون مین موتین شکستہ اور برہم خوردہ موجود ہین اور مورتون کے ناقص ہو جانے سے کہ کسی کا سر ہی رہ گیا ہے کسی کا دھڑ ہی باقی ہے اور بیل پتون کے انتظام کے اولٹ پلٹ ہونے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ اینٹین اور جگہ سے اوکھاڑ کر یہان لگائی ہین۔ ہندؤن کی تاریخ بموجب راجہ جدہشٹر نے اس گھاٹ پر جگ کیا تھا کچھ عجب نہین کہ ہندوون کے عہد مین اس گھاٹ پر کسی مقام کو اوس جگ کی جگہ تصور کر کر چھتری بنا دی ہو اور ہمایون کے عہد مین وہی چھتری ٹوٹ کر یہ چھتری بنی ہو۔ ۱۰۲۸ ہجری مطابق ۱۶۱۸ عیسوی کے جب جہانگیر بادشاہ بارادہ جانے کشمیر کے دلی مین پہونچا تو اوسنے ایک کتبہ اسمین لگا دیا اور جب ۱۰۳۰ ہجری مطابق ۱۶۲۰ عیسوی وہان سے پھرا تو دوسرا کتبہ لگا دیا۔​
درگاہ امام ضامن یعنی مقبرہ سید حسین پای منار​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۴۹
لاٹھ کے نیچے بڑے دروازے کے پاس یہ ایک مقبرہ ہے امام محمد علی مشہدی کا جنکو سید حسین پاے منار بھی کہتے ہین۔ یہ بزرگ مشہد مقدس طوس سے سلطان سکندر کے وقت مین دلی مین آئے اور اسی مقام پر سکونت اختیار کی اور یہ مقبرہ اپنے سامنے آپ بنایا جب کہ ۹۴۴ ہجری مطابق ۱۰۳۷ عیسوی مین انکا انتقال ہوا تو بموجب وصیت کے اسی مقبرے مین دفن ہوئے قطع اس مقبرے کی بہت اچھی ہے برج بھی خوشنما ہے اند سنگ مرمر کا فرش ہے اور دروازے پر کتبہ لگا ہوا ہے۔​
درگاہ حضرت قطب صاحب رحمۃ اللہ علیہ​
یہ درگاہ ہے حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کی۔ آپ کا انتقال شب دوشنبہ چودھوین ربیع الاول ۶۳۴ ہجری مطابق ۱۲۳۶ عیسوی کے ہوا اور اس مقام پر مدفون ہوئے مگر یہان کچھ عمارت نتھی ۹۴۸ ہجری مطابق ۱۵۴۱ عیسوی کے شیر شاہ کے وقت مین خلیل اللہ کان نے ایک چاردیواری بنوائی تھی کہ وہ چاردیواری اب نہین رہی۔ ۹۵۸ ہجری مطابق ۱۵۵۱ عیسوی کے اسلام شاہ کے وقت مین یوسف کان نے بھی ایک دروازہ اس درگاہ مین بنایا کہ اوسکی تاریخ بنا۔ درگاہ خواجہ اقطاب ہے۔ بعد اسکے ۱۱۱۹ ہجری مطابق ۱۷۰۷ عیسوی کے شاکر خان نے شاہ عالم بہادر شاہ کے وقت مین ایک دروازہ جانب غرب بنایا کہ اب تک موجود ہے اور ۱۱۳۰ ہجری​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۰
مطابق ۱۷۱۷ عیسوی کے فرخ سیر نے آپ کے مزار کے گرد سنگ مرمر کی بہت نفیس جالیاں بنوا دیں اور سنگ مرمر کے دروازے بہت لطیف بنوائے اور اون دروازون پر کتبے لگائے۔​
مسجد قلعہ کہنہ​
جبکہ شیر شاہ بادشاہ ہوا تو اوسنے ۹۲۸ ہجری مطابق ۱۵۴۱ عیسوی کے اس مسجد کو پُرانے قلعہ کے اندر شمالی دیوار کے متصل بنایا۔ اوس زمانے کی عمارتون مین یہ مسجد بہت خوبصورت عمارت ہے۔ اندر سے اور ساری رو کا سنگ سرخ کی بنی ہوئی اور کہیں کہیں نہایت خوشنمائی سے سنگ مرمر بھی لگایا ہے ۔ ہر جگہ قرآن کی آیتین نسخ اور کوفی خط مین کندہ ہین۔ ہرہر محراب اور گوشے اور کونے پر بہت تحفہ منت کاری اور بہت خوب پچکاری کی ہوئی ہے۔ اسکی ساخت قابل دیکھنے کے ہے۔ لداؤ اس مسجد کا نہایت عمدہ ہے۔ سنگ سرخ کے پتھرون کو چھوٹا چھوٹا تراش کر بہت خوبصورتی اور دانائی اور اوستادی سے ایسا خوبصورت اور مضبوط لداؤ لادا ہے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اوس لداؤ مین ہر جگہ بہت تحفہ منبت کاری بنائی ہے۔ اسکے صحن مین ایک بہت خوبصورت سولہ پہلو کا حوض ہے مگر اب بے مرمتی کے سبب بالکل خراب ہو گیا ہے۔ اس مسجد کی دیوارون کے آثار بہت چوڑے ہین اور آثارون مین چھت پر چڑھنے کا زینہ اور طرح طرح کے نشیمن نکالے ہین۔ اس مسجد کی چھت پر ایک​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۱
گنبد اب تک موجود ہے اور ادھر اودھر گنبد کے دو چھتریان تھین کہ اب ٹوٹ گئین ہین ۔ اس مسجد کو اکبر نامے مین جامع مسجد کر کر لکھا ہے۔ شاید ہمایون کے وقت مین یہی جامع مسجد ٹھہر گئی ہو۔ اِس مسجد پر کہین تاریخ کا کتبہ نہین ہے الا مسجد کی آگے پیش طاق کے دائین بائین طاقون مین چند شعر کندہ ہین۔
شیر منڈل
اسی پُرانے قلعہ مین شیر شاہ نے ۹۴۸ ہجری مطابق ۱۵۴۱ عیسوی کے مسجد کے پاس بہت بلند سہ منزلی ایک عمارت بنائی اور شیر منڈل اوسکا نام رکھا کہ اب تک اسی نام سے مشہور ہے۔ یہ عمارت تمام سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے۔ پہلے اور دوسرے درجے کے بیچون بیچ مین ایک کمرہ ہے اور چارون طرف بہت پتلی غلام گردش ہے اور دیوار مین سے اوپر کو زینہ چڑھایا ہے اور تیسرے درجے پر ایک برجی بنائی ہے جبجر سیر کے اور کچھ اس عمارت سے فائدہ معلوم نہین ہوتا جبکہ ہمایون بادشاہ دوبارہ دلی مین بادشاہ ہوئے تو اس مکان مین کتب خانہ رکھا تھا۔ ۹۶۳ ہجری مطابق ۱۵۵۵ عیسوی شام کے وقت ہمایون بادشاہ اس کتب خانے مین آئے اور اوسی رات احتمال تھا کہ زہرہ طلوع کرے اوسکو دیکھا چاہا۔ جب وہان سے اوترنے لگے تو زینے پر سے کہ نہایت پیچدار ہے پانؤن پھسل گیا اور بادشاہ نیچے گر پڑے۔ کن پٹی مین بہت چوٹ آئی اور چند روز بعد مر گئے۔ میراز ہدایت اللہ خان نے
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۲
اپنی تاریخ مین اس عمارت کو ہمایون بادشاہ کی بنائی خیال کیا ہے۔ یہ صحیح نہین ہے۔
مسجد و مقبرہ خیر پور
اسمین تو کچھ شک نہین کہ یہ مقبرہ اور مسجد پٹھانون کے وقت کی ہے اور تخمیناً ۹۵۰ ہجری مطابق ۱۵۴۳ عیسوی یعنی قریب قریب زمانہ شیر شاہ کے بنی ہوئی ہے اگرچہ اسکے بنانے والے کا نام تحقیق نہین ہوا لیکن اسمین کچھ شک نہین رہا کہ پٹھانون کے وقت کی کسی امیر کا جسکے نام پر یہ گانؤن آباد ہے یہ مقبرہ ہے اور اوسکی یہ مسجد بنائی ہوئی ہے اگرچہ یہ مسجد چونے اور پتھر سے بنی ہوئی ہے مگر اسکے خوش قطع ہونے مین کلام نہین۔ اس مسجد مین چونے کاری کی بہت تحفہ منبت کاری کی ہوئی ہے اور پیشانی مین چونے کاری سے آیات قرآنی کھدی ہوئین ہین ایسی خوش قطع مسجد پٹھانون کے وقت کی بہت کم دیکھنے مین آئی ہے۔
کھاری باؤلی
پہلے اس مقام پر عماد الملک عرف خواجہ عبد اللہ نے اسلام شاہ کے وقت مین ۹۵۲ ہجری مطابق ۱۵۴۵ عیسوی کے ایک کنوان بنایا تھا۔ چھ برس بعد ینعی ۹۵۸ ہجری مطابق ۱۵۵۱ عیسوی کے اوس کنوئین کے آگے باؤلی بنا دی۔ جب شاہجہان نے شہر بسایا تو یہ باؤلی بھی شہر مین آ گئی۔ اب یہان بہت لوگون نے مکان
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۳
بنا لیے ہین اور یہ بھی ایک محلہ ہو گیا ہے اور یہ کتبے اس باؤلی کے ہین۔
مقبرہ عیسی خان
عرب سراے کے پاس ایک چار دیواری ہے اوسکو عیسی خان کا کوٹلہ کہتے ہیں۔ اوس کوٹلے مین یہ مقبرہ ہے۔ اس مقبرے کو عیسی خان نے جو اسلام کے عہد کے بڑے نامی امیرون مین سے ہین ۹۵۴ ہجری مطابق ۱۵۴۷ عیسوی کے اپنے جیتے جی بنایا۔ مقبرے کے اندر کتبہ لگا ہوا ہے۔ پٹھانون کے وقت کی عمارتون مین یہ مقبرہ نہایت خوبصورت ہے۔ بیچ مین برج ہے اور چارون طرف غلام گردش سنگ خارا اور چونے سے بہت خوبصورت بنائی ہے۔ اس مقبرے مین گنوار بستے ہین۔ اوس نفیس عمارت کو خراب کرتے جاتے ہین۔
مسجد عیسی خان
یہ مسجد عیسی خان کے مقبرے کے پاس ہے اور اس مسجد کو بھی عیسی خان نے ۹۵۴ ہجری مطابق ۱۵۴۷ عیسوی کے اسلام شاہ کے وقت مین مقبرے کے ساتھ بنایا ہے۔ یہ مسجد نرے چونے اور پتھر سے بنی ہوئی ہے اور محرابون مین کہین کہین سنگ سرخ بھی لگا ہوا ہے۔
مسجد درگاہ حضرت قطب صاحب
قطب صاحب کے مزار کے پاس جالیون کے قریب یہ مسجد ہے۔ اس مسجد کے تین درجے ہین پہلا درجہ دو محراب کا کچا ہے۔ صرف مٹی کا اس درجے کو
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۴
حضرت قطب صاحب نے آپ بنایا تھا۔ ۹۵۸ ہجری مطابق ۱۵۵۱ عیسوی کے سلیم شاہ کے وقت مین اوس کچے درجے کے آگے ایک اور درجہ بنا۔ بعد اوسکے ۱۱۳۰ ہجری مطابق ۱۷۱۷ عیسوی کے فرخ سیر نے اوسکے آگے ایک اور تیسرا درجہ بنایا اور اوسکی پیشانی پر تاریخ لگائی جسکا مادہ تاریخ۔ بیت ربی مستجاب ہے۔
عرب سرا
ہمایون کے مقبرے کے پاس یہ سرا ہے اور اس سرا کو نواب حاجی بیگم ہمایون بادشاہ کی بیوی نے سن۶ جلوس اکبری مطابق ۹۶۸ ہجری موافق ۱۵۶۰ عیسوی کے بنایا ہے۔ اس سرا مین تین ۳۰۰ عرب آباد ہوئے تھے۔ اس سبب سے عرب سرا کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ عمارت اس سرا کی بہت بدل گئی ہے الا قدیم دروازہ جو بہت خوبصورت اور نہایت تھفہ بنا ہوا ہے اب بھی موجود ہے۔
خیر المنازل
یہ مدرسہ ہے ماہم بیگم کا جنھون نے بڑے اکبر کو دودھ پلایا تھا۔ ۹۶۹ ہجری مطابق ۱۵۶۱ عیسوی کے یہ مسجد اور مدرسہ پُرانے قلعہ کے پاس بنایا یہ عمارت بالکل چونے اور پتھر کی ہے اور اب بالکل شکستہ ہو گئی ہے۔ مسجد کی پیشانی پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے۔
بھول بھلیان
قطب صاحب کے نواح مین لاٹھ کے قریب ادہم خان ماہم آتکہ کی بیٹی اور اکبر بادشاہ کے
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۶
دریائے خجالت میں ڈوب جاتا ہے اور سنگ سرخ وہ نادر کہ گلاب کی پنکھریون پر شرف لیجاتا ہے۔ برج اسکا نرا سنگ مرمر کا گویا خدا کی قدرت کے دریا کا ایک موتی ہے۔ قطع اسکی ایسی خوبصورت ہے کہ آسمان بھی اسکے آگے پانی کا ایک بلبلہ ہے۔ چوڑان چکلان اونچائی مقبرے کی نہایت مناسب ہے۔ باوصف اسقدر بڑائی کے بہت نازک دکھائی دیتا ہے۔ صحن اوسکا بہت دلکشا اور مکانات اسکے نہایت دلربا باوضع اسکی نہایت خوب قطع اسکی بغایت مرغوب کسی زمانے مین یہ باغ بھی بہت آراستہ تھا۔ چارون طرف نہرین جاری تھین۔ جابجاحوض بنے ہوئے تھے۔ پانی لہراتا تھا فوارے چھوٹتے تھے پھول کھلتے تھے بلبلین چہچہاتین تھین مگر اب سب ویران ہو گیا۔ وہ سرو جو قد یار پر طعنہ مارتے تھے اور وہ پھول لب دلبرون پر ہنستے تھے نام کو بھی نرہے۔ نہرین ٹوٹ گئین حوض بند ہو گئے، فوارے چپ ہو رہے کنوئین اندھے ہو گئے آبشارون کا نام نرہا۔ کہین کہین ٹوٹا پھوٹا ان باتون کا نشان پایا جاتا ہے۔ ۹۷۳ ہجری مطابق ۱۵۶۵ عیسوی کے نواب حاجی بیگم ہمایون بادشاہ کی بیوی نے ۱۴ جلوس اکبری مین اس مقبرے کو بنوانا شروع کیا۔ سولہ برس کے عرصے مین پندرہ لاکھ روپیہ خرچ ہو کر تیار ہوا۔ خاندان تیموریہ کا یہ مقبرہ قبرستان ہے۔
نیلی چھتری یا مقبرہ نوبت خان
پُرانے قلعہ کے پاس یہ مقبرہ ہے نواب نوبت خان اکبری کا اونھون نے
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۷
۹۷۳ ہجری مطابق ۱۵۶۵ عیسوی کے یہ مقبرہ اپنے جیتے جی بنایا۔ اس مقبرے کا برج چینی کاریکا نیلہ تھا اس سبب سے نیلی چھتری کر کر مشہور ہے۔ اب یہ مقبرہ ٹوٹ گیا ہے۔ برج بھی گر پڑا ہے۔ مقبرے کی نمایش بھی خراب ہو گئی ہے۔
مقبرہ تکہ خان
یہ مقبرہ شمس الدین محمد خان غزنوی کا جنکا اعظم خان خطاب تھا بڑے اکبر کی اَنّاَ کے خاوند تھے۔ ۹۶۹ ہجری مطابق ۱۵۶۱ عیسوی کے ادہم خان نے اونکو مار ڈالا تھا۔ بادشاہ نے اوسکے بدلے ادہم خان کو دو دفعہ قلعہ پر سے گروا کر مار ڈالا۔ دوخون شد۔ بزیادتی ایک کے اسکی تاریخ ہے اور یہ مصرع بھی تاریخ کا ہے۔ رفت ازظلم سر اعظم خان۔ اور یہ قطع بھی تاریخ کا قطعہ ہے۔
خان اعظم سپاہ اعظم خان
کہ چواوکس درین زمانہ ندید
بشہادت رسید ماہ صیام
شربت موت روزہ دار چشد
کاش سال دگر شہید شدے
کہ شدی سال فوت خان شہید
غرضکہ انکے مارے جانے کے بعد انکی لاش دلی مین لائے اور حضرت نظام الدین کی درگاہ کے پاس دفن کیا۔ ۹۷۴ ہجری مطابق ۱۵۶۶ عیسوی کے کوکلتاش خان انکے بیٹے نے یہ مقبرہ بنایا۔ یہ مقبرہ بھی بہت خوب ہے۔ سنگ سرخ اور سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ آیات قرآنی اور گل بوٹے بہت خوبصورتی سے کندہ ہین۔ دروازے کی پیشانی پر تاریخ بنا کا کتبہ لگا ہوا ہے۔
درگاہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۸
یہ درگاہ شہر شاہجہان آباد سے تھوڑی دور فراش خانے کی کھڑکی کے باہر واقع ہے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب نقشبندی کی یہ درگاہ ہے۔ ۱۰۱۲ ہجری مطابق ۱۶۰۳ عیسوی کے آپ کا انتقال ہوا اور جب ہی آپ کا مزار بنا پھر رفتہ رفتہ ایک مسجد بھی بن گئی اور بہت قبرین ہو گئین۔ آپ کے مزار کے سرہانے ایک دیوار ہے کہ اوسمین طاق طاق بنے ہوئے ہین اوسمین چراغان روشن ہوتے ہین۔
درگاہ حضرت امیر خسرو
حضرت نظام الدین کی درگاہ کے پاس یہ درگاہ ابو الحسن عرف امیر خسرو کی ہے۔ اونتیسوین ذیقعدہ ۷۲۵ ہجری مطابق ۱۳۲۴ عیسوی کے آپ کا انتقال ہوا اور اس مقام پر جو یارانی چبوترہ کہلاتا تھا دفن ہوئے۔ اپ کے مزار کے سرہانے لوح پر تاریخ انتقال کندہ ہے جسکا پہلا مادہ – عدیم المثال – اور دوسرا طوطی شکر مقال ہے۔ ۹۹۷ ہجری مطابق ۱۵۸۸ عیسوی سید مہدی نے صرف محجر بنا کر یہ عمارت جو اب موجود ہے ۱۰۱۴ ہجری مطابق ۱۶۰۵ عیسوی کے عماد الدین حسن نے یہ عمارت سنگ مرمر کی تعمیر کی۔ برج کے اندر چند اشعار اور کتبہ تاریخ بنا کندہ ہے۔ اس درگاہ مین ہر برس کی سترھوین شوال کو بہت دھوم سے میلہ ہوتا ہے اور موسم بہار مین بسنت بھی بہت خوب ہوتا ہے۔
جیل خانہ یا سرائے فرید خان
درحقیقت یہ رائے ہے۔ نواب فرید خان جہانگیری المخاطب بہ مرتضی خان کی بنائی ہوئی
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۹
تخمیناً ۱۰۱۷ ہجری مطابق ۱۶۰۸ عیسوی کے اونھون نے یہ سرا بنائی تھی جب پُرانی دلی ویران ہو گئی۔ یہ سرا بھی ویران پڑی تھی۔ سرکار انگریزی نے اسکی مرمت کی اور اوسکو جیل خانہ تجویز کیا۔ اس سرا کا دروازہ بہت عالیشان بنا ہوا ہے اور اوسکے اوپر بھی مکانات ہین کہ داروغہ جیل خانہ اوسمین بفراغت رہ سکتا ہے اب اس کے قریب اور بہت سے مکانات جیل خانے اور کانجی حوض اور پاگل خانے کے بن گئے ہین۔
بارہ پلہ
یہ پُل شاہجہان آباد سے چار میل جنوب کیطرف واقع ہے۔ ایسا نفیس پُل اسطرف نہین ہے۔ اس پُل کو جہانگیر بادشاہ کے عہد میں ۱۰۲۱ ہجری مطابق ۱۶۱۳ عیسوی کے مہربان آغا عرف آغا مان المخاطب بہ آغائے آغایان خواجہ سرا نے بنایا ہے۔ یہ آغا اکبری اور جہانگیری عہد کے بڑے نامی خواجہ سراؤں مین سے ہین اور یہ پُل بھی بہت خوبصورت پتھر اور چونے سے بنا ہوا ہے اوسکے سر پر ایک پتھر پر چند شعر پُل بنے کی تاریخ اور جہانگیر بادشاہ کی تعریف میں کندہ ہین۔
منڈی
یہ منڈی مہربان آغا خواجہ سرا کی بنائی ہوئی ہے اور جس زمانے میں کہ اوسنے بارہ پلہ بنایا یعنی ۱۰۲۱ ہجری مطابق ۱۶۱۲ عیسوی کے اوسی زمانے مین یہ منڈی
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۰
بنائی۔ اس منڈی کا دروازہ بہت خوبصورت ہے اور اوسپر بانی کا نام کھدا ہوا ہے۔ منڈی کے اندر ایک مسجد تھی وہ تو ٹوٹ گئی مگر ایک کنوان سیڑھیون دار اب تک موجود ہے اور بائین کے نام سے مشہور ہے۔ اس قسم کے کنوئین مالوے کیطرف بہت ہین مگر اسطرف ایسا کنوان عجائبات سے ہے۔
کوس منارہ
جہانگیر بادشاہ نے اپنے عہد مین بنگالے سے آگرے ہوتے ہوئے دریائے اٹک تک سڑک بنوا کر دو طرفہ درخت لگائے تھے۔ سن ۱۴ جلوسی مطابق ۱۰۲۸ ہجری موافق ۱۶۱۸ عیسوی کے یہ بھی حکم دیا کہ آگرے سے لاہور تک ہر کوس کے سرے پر ایک منارہ بنوا دیا جائے اور تین کوس پر ایک کنوان چنانچہ یہ منارہ چونے اور پتھرکے بہت مستحکم اور بلند ابتک بنے ہوئے موجود ہین۔ اکثر منارون مین معلوم ہوتا ہے کہ تعداد کوس کے لیے پتھر لگانے کو خانہ چھوڑا ہے مگر کسی مین پتھر لگا ہوا نہین ہے۔
پُل سلیم گڈھ
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سلیم شاہ نے جب سلیم گڈھ بنایا تھا تو اوسوقت دریا اسکے نیچے بہتا تھا اور جنوب کیطرف پانی نہ تھا اور اوسی طرف کے دروازے سے اس قلعہ مین جاتے تھے اور ایک دروازہ شمال کی جانب دریا کے کنارے پر تھا شاید ایک مدت کے بعد پانی کی ٹکر سے جنوب کیطرف کا کرارا دریا کا کٹ گیا اور اس قلعہ کے چارون طرف پانی ہو گیا اور قلعہ مین جانے کا راستہ نرہا تب
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۱
نورالدین جہانگیر بادشاہ نے سن ۷ جلوس مطابق ۱۰۳۱ ہجری موافق ۱۶۲۱ عیسوی کے اس قلعہ کے جنوبی دروازے کے آگے بہت تحفہ اور نہایت مضبوط پختہ چونے اور پتھر کا پُل بنوایا ہے کہ وہ پُل اب تک موجود ہے اور اوسپر دو کتبے بھی لکھے ہوئے ہین۔ جب شاہجہان نے قلعہ بنایا تو یہ پُل مین ایسا مل گیا کہ گویا اس قلعہ ہی کے لیے بنایا تھا۔
مقبرہ شیخ فرید
بیگم پور کی مسجد کے پاس یہ مقبرہ ہے شیخ فرید ابن شیخ احمد بخاری کا جنکو جہانگیر کے عہد مین مرتضی خان کا خطاب ملا تھا۔ اس مقبرے کے مکانات بالکل ٹوٹ گئے ہین۔ صرف دالان باقی رہ گیا ہے۔ سن ۹ جلوس جہانگیری مطابق ۱۰۳۳ ہجری موافق ۱۶۶۳ عیسوی کے انکا انتقال ہوا کہ سال وفات اونکی قبر پر کندہ ہے اور اسی زمانے کے قریب یہ مقبرہ بنا۔
نیلہ برج یا مقبرہ فہیم
یہ مقبرہ ہے ہمایون کے مقبرے کے پاس کوئی تو اسکو حجام کا مقبرہ بتاتا ہے اور کوئی فہیم کا۔ پہلی بات تو یقینی غلط ہے اور دوسری بات اگر صحیح ہو تو یہ مقبرہ عبد الرحیم خان خانخانان کا بنایا ہوا ہے۔ ۱۰۳۳ ہجری مطابق ۱۶۲۳ عیسوی کے جبکہ مہابت خان نے خانخانان کو براہ دغا نظر بند کیا تو پہلے فہیم پاس جو خانخانان کے بڑے عزیز چیلون مین سے تھا پیغام سازش کا بھیجا۔ اوسنے
 
Top