عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۵۷
۹۷۳ ہجری مطابق ۱۵۶۵ عیسوی کے یہ مقبرہ اپنے جیتے جی بنایا۔ اس مقبرے کا برج چینی کاریکا نیلہ تھا اس سبب سے نیلی چھتری کر کر مشہور ہے۔ اب یہ مقبرہ ٹوٹ گیا ہے۔ برج بھی گر پڑا ہے۔ مقبرے کی نمایش بھی خراب ہو گئی ہے۔
مقبرہ تکہ خان
یہ مقبرہ شمس الدین محمد خان غزنوی کا جنکا اعظم خان خطاب تھا بڑے اکبر کی اَنّاَ کے خاوند تھے۔ ۹۶۹ ہجری مطابق ۱۵۶۱ عیسوی کے ادہم خان نے اونکو مار ڈالا تھا۔ بادشاہ نے اوسکے بدلے ادہم خان کو دو دفعہ قلعہ پر سے گروا کر مار ڈالا۔ دوخون شد۔ بزیادتی ایک کے اسکی تاریخ ہے اور یہ مصرع بھی تاریخ کا ہے۔ رفت ازظلم سر اعظم خان۔ اور یہ قطع بھی تاریخ کا قطعہ ہے۔
خان اعظم سپاہ اعظم خان
کہ چواوکس درین زمانہ ندید
بشہادت رسید ماہ صیام
شربت موت روزہ دار چشد
کاش سال دگر شہید شدے
کہ شدی سال فوت خان شہید
غرضکہ انکے مارے جانے کے بعد انکی لاش دلی مین لائے اور حضرت نظام الدین کی درگاہ کے پاس دفن کیا۔ ۹۷۴ ہجری مطابق ۱۵۶۶ عیسوی کے کوکلتاش خان انکے بیٹے نے یہ مقبرہ بنایا۔ یہ مقبرہ بھی بہت خوب ہے۔ سنگ سرخ اور سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ آیات قرآنی اور گل بوٹے بہت خوبصورتی سے کندہ ہین۔ دروازے کی پیشانی پر تاریخ بنا کا کتبہ لگا ہوا ہے۔
درگاہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ