اسکین دستیاب آثار الصنادید (اسکین صفحات: حصہ دوم)

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۲
جی پور اور متھرا اور بنارس اور اوجین مین بھی بنایا گیا۔ اکثر آلات اس رصد خانے مین چونے اور پتھر کے بنائے تھے تاکہ رصد مین فرق نہ پڑے۔ یہ رصد خانہ اب بالکل خراب ہو گیا ہے۔ سب آلات ٹوٹ گئے ہین اور سب کی تقسیمین مٹ گئی ہین۔ کوئی آلہ اس قابل نہین رہا کہ اوس سے ایک بھی عمل ہو سکے۔ تین آلے منجملہ آلات کے جو چونے اور پتھر سے بنائے تھے اب تھی ٹوٹے پھوٹے موجود ہین۔
اول جی پرکاش
یہ آلہ ہے حساب ظل کا ایک سطح مستوی پر عمود بطور مقیاس کے قائم کرکر گرد اوسکے دائرہ افق ترپن ۵۳ فٹ آٹھ انچھ کے قطر کا کھینچ کر اوسپر چار درجے کی گول دیوار کنوئین کی کوٹھی کی طرح اوٹھائی ہین کہ ایک درجہ زمین مین دبا ہوا ہے اور تین اوپر نکلے ہوئے ہین۔ اوسکی ساٹھ ۶۰ پر تقسیم کی ہے۔ ایک خانہ کُھلا بطور طاق کے اور ایک بند رکھا ہے۔ اندر کے رخ مقنطرات کھینچے ہین اور درجات کی تقسیم کی ہے اور مقیاس اور سطح دائرہ اور افق اور مقنطرات سب کے سب منقسم ہین۔
دوم رام جنتر
یہ آلہ ایک چبوترہ ہے۔ سلامی شمال کی طرف سے بقدر عرض بلد اوٹھا ہوا اور اوسپر چار قوسین ہین اور ہر ایک قوس کے دونون طرف سیڑھیان بنا دی ہین۔


 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۳
تاکہ سیڑھیون پر چڑھکر سائے کا حال دیکھین۔ اوس چبوترے کے نیچے سے دو قوسین اور نکالی ہین۔ معدل النہار اور منطقہ البروج کی لیکن بقدر عرض بلد کے منحرف اور اوسکی ہر ایک قوس پر تقسیم تھی کہ وہ بالکل مٹ گئی اور قوسین بھی اکثر ٹوٹ گئی ہین۔
سوم سمراٹھ جنتر
یہ جنتر درحقیقت مقیاس ہے۔ ایک پاکھہ بیچ مین بنا کر دائرہ معدل النہار جسکا نصف قطر اٹھارہ ۱۸ گز کا ہے منحرف بقدر عرض بلد چونے اور پتھر سے نہایت مستحکم بنایا تھا اوسپر ساری تقسیم ہے۔ پاکھے پر سیڑھیان بنائی ہین کہ اوسپر سے پاکھے کے سر پر چڑھ جاتے ہین۔ اسیطرح دائرہ معدل النہار کے دونون طرف سیڑھیان بنائی ہین کہ اون پر سے سائے کو دیکھتے تھے۔ اس جنتر کی بھی تقسیم بالکل خراب ہو گئی ہے۔ اگرچہ ۱۸۵۳ عیسوی مین پاکھے کی مرمت راجہ جی پور نے بموجب تحریک آرکیو لاجنکل سوسیٹی مقام دہلی کے کی الا پوری مرمت نہین ہوئی۔ یہ تینون آنے خود سوائی جے سنگھ نے ایجاد کیے ہین اور اسی سبب سے انکے منہدی نام رکھے ہین۔
کرہ مقعر
اسی جنتر کے نیچے دو کرہ مقعر آدھے آدھے بنائے ہین۔ اسطرح پر کہ مدار قطب بروج کا ہر ایک مین ناقص ہے۔ اگر ایک کرے کو اوٹھا کر دوسرے کرے پر
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۴
رکھدین تو سارا کرہ پورا ہو جائے۔ ان کرون مین بارہ ۱۲ قوسین بنائی ہین۔ تقسیم بروج کی چھ ۶ خالی اور چھ ۶ بھری اور ہر جگہ تقسیم کے خطوط تھے اور شاید قطب کے جانب میل تھا کہ اب وہ بھی ٹوٹ گیا ہے اور تقسیم بھی بالکل مٹ گئی۔ ہر خالی قوس مین زینے بنے ہوئے ہین کہ اون پر سے چڑھ کر سائے کا حال دیکھتے تھے۔ قطر ان دونون کرون کا چھبیس ۲۶ فٹ کا ہے اور چونے اینٹ سے نہایت مستحکم بنے ہوئے ہین۔
یہ رصد خانہ وہ ہے کہ جسمین پہلے پہل انگریزی ہیئت جدید کے اکثر قواعد تسلیم کیے گئے ہین ورنہ اس سے پہلے یونانی ہیئت والون نے اور زیچ بنانے والون نے اون قاعدون مین سے ایک کو بھی تسلیم نہین کیا تھا۔ اسی سبب سے یہ رصد خانہ اپنے ساتھیون مین یکہ اور بہت نامی ہے۔ ۱۴ جلوس محمد شاہ مطابق ۱۱۴۴ ہجری موافق ۱۷۳۱ عیسوی کے راجہ سوائی جی سنگھ نے کئی آدمی ریاضی دان پادری منویل کے ساتھ فرنگستان مین بھیجے اور وہان سے آلات رصد اور دوربینین منگوائین اور وہ لوگ خود بھی فرنگستان کا رصد خانہ دیکھکر آئے اور زیچ جدید جسکا لیز نام تھا یہان لائے اور اس رصد خانے سے مطابقت کی لیز کے حساب مین تقویم قمر مین آردھے درجے کا اور کسوف اور خسوف کے زمانے مین چوتھائی دقیقہ یعنی پندرہ پل کا فرق نکلا۔ انھین باتون سے یقین ہوتا ہے کہ اس رصد خانے مین انگریز بھی شریک تھے بلکہ انگریزی ہیئت جدید کے قواعد کا اس یونانی
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۵
رصد خانے میں مان لینے کا بڑا سبب یہی معلوم ہوتا ہے اگرچہ یونانی ہیئیت والون نے ان نئی باتون کے مان لینے پر بہت تکرار کی تھی اور یہ بات چاہیے تھی کہ ان نئی باتون کو عقلی دلیلون سے ثابت کیا جائے مگر جو کہ ان نئے قاعدون سے جو بات کہ حساب کی راہ سے نکالی جاتی تھی اور جو بات کہ رصد سے دیکھی جاتی تھین وہ دونون ٹھیک نکلتی تھین اسواسطے یہی مطابقت اون قاعدون کی صحت کو کافی متصور ہو کر عملی دلیلین قائم کرنے پر یا تو توجہ نہیں کی اور یا درحقیقت قائم نہوسکین۔ اب اس مقام پر ایک مختصور فہرست اون باتون کی لکھتے ہین جو برخلاف یونانی ہیئیت کے اس رصد خانے میں تسلیم کی گئین ہین۔​
1) مدار خارج مرکز شمس کو بیضئی تسلیم کیا۔​
2) چاند کی حرکتون کو بیضئی مدار پر مانا۔​
3) یہ بات تسلیم کی گئی کہ زہرہ اور عطارد بھی چاند کی طرح آفتاب سے روشن ہیں اور بدر اور ہلال ہوتے ہین۔​
4) یہ بات مانی گئی کہ زحل گول کردی شکل پر نہین بلکہ اہلیلجی شکل پر ہے۔​
5) مشتری کے کر گرد چار روشن ستارے قبول کیے گئے جنکا اقمار مشتری نام ہے۔​
6) آفتاب پر کے نشان مختلف مانے گئے کہ وضعی حرکت سے ایک برس کے قریب دورہ پورا کرتے ہین۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۶
1) کواکب ثوابت درحقیقت ثوابت نہین ہین بلکہ اوسمین سے اکثر سیارہ ہین۔ اس رصد خانے میں رویت ہلال کی اور ظہور اور خفائی کواکب اور طلوع اور غروب منازل قمر کے حساب کرنے کی حاجت نہین رہی تھی کیونکہ دوربین کی مدد سے یہ سب چیزین دن کو آنکھون سے دیکھ لیجاتی تھین ان مختلط قواعد یونانی اور انگریزی پر جو اس رصد خانے مین مانے گئے زیچ جدید محمد شاہی تیار ہوئی ہے اسمین کچھ شک نہین کہ اس زیچ کا حساب اور زیچون کے حساب سے بہت صحیح نکلتا ہے۔ اسی رصد خانے میں ایک نئی تاریخ نکالی گئی جو تاریخ محمد شاہی کہلاتی ہے۔ ابتدا اس تاریخ کی پہلی ربیع الثانی 1131 ہجری روز دو شنبہ مطابق 1718 عیسوی سے رکھی ہے اور اس ابردا کو ابتدائے جلوس محمد شاہ فرض کیا ہے۔ اگرچہ ابتدا جلوس اسکا یہ نہین لیکن جو کہ جلال الدین فرخ سیر آٹھوین ربیع الثانی 1131 ہجری مطابق 1718 عیسوی کے مرا اور اوسکے بعد رفیع الدرجات اوسکے پیچھے رفیع الدولہ تخت پر بیٹھا اور انکے بعد محمد شاہ بادشاہ ہو اجو کہ ان دونون کی مدت سلطنت چند ماہ سے زیادہ نہین ہوئی۔ اسواسطے انکی سلطنت کو معدوم تصور کرکر اور آٹھ دن جو ربیع الثانی مین سے گئے تھے درستی حساب کے لیے زیادہ کرکر پہلی ربیع الثانی سے ابتدا اس تاریخ کے شمار کی یہ تاریخ قمری ہے اور برس اور مہینے بھی اسکے قمری ہین اور بالکل ہجری تاریخ سے مطابقت​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۷
رکھتی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ہجری سال محرم سے شروع ہوتا ہے اور محمد شاہی ربیع الثانی سے ایک تاریخ سے دوسری تاریخ کا حساب کرکر نکالنے کے قاعدے زیچ کی کتابون مین لکھے ہین۔ اس مقام پر اونکے بیان کی حاجت الا اسقدر بیان کر دینا چاہیے کہ یکم جولائی 1852 عیسوی مطابق چودھوین رمضان 1308 محمد شاہی حسابی اور بارھوین رمضان 1308 محمد شاہی ہلالی کی تھی۔​
شاہ مردان​
یہ ایک درگاہ ہے منصور علی خان صفدر جنگ کے مقبرے کے سامنے حال اسکا یون ہے کہ اودہم بائی زوجہ محمد شاہ بادشاہ جسکو احمد شاہ کی سلطنت مین اول نواب بائی اور پھر نواب قدسیہ صاحب الزمانی کا خطاب ملا، شیعہ مذہب کی تھی۔ 1137 ہجری مطابق 1724 عیسوی اوسکے پاس ایک پتھر آیا جسپر نقش قدم تھا اور یہ بیان کیا گیا کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے قدم کا نقش ہے۔ نواب قدسیہ نے اوس نقش قدم کو اس مقام پر سنگ مرمر کے حوض میں جما دیا اور اوس حوض کے نیچے سنگ مرمر کا فرش کرکر محجر بنایا اور اوسکے کنارے پر یہ شعر کندہ کر دیا۔ شعر :​
برزمینی کہ نشان کف پاے تو بود​
سالہا سجدہ صاحب نظران خواہد بود​
جب سے ہمیشہ اس درگاہ کی ترقی ہوتی گئی۔ احمد شاہ کے عہد مین نواب قدسیہ نے 1162 ہجری مطابق 1748 عیسوی کے جاوید خواجہ سرا کے اہتمام​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۸
سے چار دیواری اور مجلس خانہ اور مسجد اور حوض بنوایا اور پھر 1223 ہجری مطابق 1808 عیسوی کے عشرت علی خان نے مجلس خانہ بنوایا اور 1237 ہجری مطابق 1821 عیسوی کے صادق علی خانہ نے نقار خانہ بنوایا۔ اب یہ درگاہ بہت خوب آراستہ ہے۔ ہر مہینے کی بیسیون کو یہان مجلس ہوتی ہے اور رمضان کی بیسوین کو بہت ہجوم ہوتا ہے اور محرم مین تعزیے یہین آتے ہین اور بہت مجمع ہوتا ہے اور جس میدان میں تعزیے ٹھنڈے ہوتے ہین۔ اوسکا نام کربلا رکھا ہے اوسکی بھی چار دیواری میرزا اشرف بیگ خان نے بنوا دی ہے۔​
فخر المساجد​
شہر شاہجہان آباد کے اندر کشمیری دروازے کے پاس یہ مسجد ہے۔ اس مسجد کو فخر النسا خانم بیوی نواب شجاعت خان نے 1141 ہجری مطابق 1728 عیسوی کے بنایا ہے۔ اگرچہ یہ مسجد بہت بڑی نہین ہے لیکن بہت ہی خوش قطع بنی ہوئی ہے۔ گنبد اس مسجد کے بہت خوبصورت ہین اور خوش وضعی مین نامور ہین۔ روکار اس مسجد کی تمام سنگ مرمر کے ہے اور جابجا سنگ سرخ کی دھاریان لگی ہوئی ہین۔ مسجد کے اندر اجارے تک سنگ مرمر بہت نفیس لگایا ہے۔ برج اس مسجد کے نرے سنگ مرمر کے ہین اور نسگ موسی کی اوسمین دھارہان لگائی ہین۔ کلس بالکل سُنہری ہین۔ مسجد کے اندر فرش سنگ مرمر کا اور باہر سنگ سرخ کا ہے۔ ضلع شمالی مین دورخہ دالان ہے اور اوس کے آگے حوض بہت ہی​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۹
خوبصورت بنایا ہوا ہے مگر افسوس ہے کہ وہ حوض اور فوارے اب ٹوٹ گئے ہین۔​
باغ محلدار خان​
سبزی منڈی سے تھوڑی دور آگے یہ باغ ہے۔ محمد شاہ کے وقت مین ناظر محلدار خان نے 1141 ہجری مطابق 1728 عیسوی کے یہ باغ بنایا۔ یہ باغ بھی بہت خوب اور نہایت نامی ہے۔ اسکے اندر ایک باردہ دری سنگین بہت خوشنما اور ایک بہت بڑا حوض جسمین نواڑا پر سکے، بنایا ہے اور نہر کے پانی سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ اس باغ کے دروازے کے آگے اوسنے بازار بنایا تھا اور بازار کے سرون پر سہ درے دروازے بنائے تھے کہ ترپولیہ کے نام سے مشہور ہین۔ ان ترپولیون پر تاریخ کندہ ہے۔​
گھاٹ نکمبود​
شہر شاہجہان آباد کے شمال مشرق کو دریا کے کنارے پر یہ ایک گھاٹ ہے۔ نکم کے معنی شاستر مین بیدون کے ہین اور بود کہتے ہین عقل اور سمجھ اور گیان کو ہندؤن کے اعتقاد مین یہ بات ہے کہ دواپر جُگ کے ابتدا مین جسکو آجتک اونکے حساب بموجب (4953) برس ہوئے برہما جی سب بیدون کو بھول گئی تھی۔ جب وہ یہان آئی تو پرمیشُر نے پھر وہ سب یاد دلائے اور سمجھا دیے اسواسطے نکمبود اسکا نام پڑا اور یہ بھی کہتے ہین کہ راجہ جدہشتر نے اس مقام پر سُموتی اماوس کے ملنے کو بڑا​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۰
جگ کیا تھا اور جگ کرنے کی جگہ پر ہندؤن نے ایک چھتری تیار کی تھی۔ کچھ عجب نہین کہ اوسی چھتری کو توڑ کر ہمایون بادشاہ نے سلیم گڈھ کے نیچے نیلی چھتری بنائی ہو اور ہندؤن کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ اس گھاٹ پر اگر مردہ پھونکا جائے تو بہت تھوڑی لکڑیون مین پُھنک جائے اور یقینی اوسکی مکت ہو جاتی ہے۔ تخمیناً 1150 ہجری مطابق 1737 عیسوی سے اس مقام پر ہندؤن نے پختہ گھاٹ سنگ سرخ کے بہت اچھے اچھے بنائے ہین۔ صبح کو نہان والی عورتون اور مردون کا عجب ہجوم ہوتا ہے جنکے حسن کی خجالت سے آفتاب بھی زرد رنگ نکلتا ہے۔​
مسجد روشن الدولہ​
شہر شاہجہان آباد مین قاضی وارہ کے پاس پھول کی منڈی اور فیض بازار مین یہ مسجد ہے۔ اس مسجد کو نواب روشن الدولہ ظفر خان نے محمد شاہ کے عہد مین 1158 ہجری مطابق 1745 عیسوی کے بنایا تھا۔ اس مسجد کے تینون برج سُنہری تھے۔ چند مدت ہوئی کہ یہان کے برج اوکھاڑ کر کوتوالی چبوترے کے پاس کی سُنہری مسجد مین لگائے ہین۔ یہ مسجد بہت نفیس بنی ہوئی تھی مگر اب بالکل شکستہ اور خراب ہو گئی تھی اور قریب تھا کہ گر پڑے، قاضی محمد فیض اللہ خان صاحب نے اپنی نیک نیتی اور عالی ہمتی سے اس مسجد کی بالکل مرمت کر دی ہے۔ اس مسجد کی پیشانی پر تاریخ کندہ ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۱
باغ ناظر​
قطب صاحب کے نواح مین جھرنے سے تھوڑی دور آگے یہ باغ ہے۔ 1161 ہجری مطابق 1748 عیسوی کے ناظر روز افزون خواجہ سرا نے محمد شاہ کے عہد مین یہ باغ بنایا تھا۔ اسکے اندر چارون طرف سنگین چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے ہین۔ بیچون بیچ مین سنگ سرخ کا ایک مکان بہت نفیس ہے۔ اوسکے آگے حوض بھی ہے۔ باغ کی آراستگی شاید محمد شاہ کے وقت مین بہت اچھی ہو پر اب تو صرف نام کو درخت رہ گئے ہین۔ اس باغ کی چاردیواری پختہ بنی ہوئی ہے اور اوسکے دروازے پر کتبہ لگا ہوا ہے۔​
محجر محمد شاہ بادشاہ​
حضرت نظام الدین کی درگاہ کے صحن مین یہ محجر ہے۔ محمد شاہ بادشاہ نے 1161 ہجری مطابق 1748 عیسوی کے انتقال کیا اور یہان دفن ہوا۔ مشہور ہے کہ یہ محجر محمد شاہ بادشاہ نے آپ بنایا تھا۔ یہ محجر بہت تحفہ بنا ہوا ہے۔ لطافت اور نفاست اسکی حد سے زیادہ اور خوبصورتی اور خوشنمائی اسکی بے اندازہ ہے۔ سنگ مرمر اس محجر کا ایسا آبدار اور خوش رنگ اور خوش قماش ہے کہ موتی کی آب اوسکے آگے خاک ہے۔ گل بوٹے بیل پتی منبت کاری کے ایسے ہین کہ نگار خانہ چین بھی اسکے آگے مات ہے۔ یہ محجر بہت نامی ہے اور درحقیقت اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس محجر کے دروازے مین دو پٹ نرے سنگ مرمر کے​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۲
ایک ڈال ایسے خوبصورت چڑھے ہوئے ہین کہ آدمی دیکھکر حیران رہ جاتا ہے۔ اس محجر مین محمد شاہ کی قبر کے سوا نواب صاحبہ محل اونکی بیوی اور میرزا جگر و محمد شاہ کے پوتے کی اور میرزا عاشوری کی بھی قبر ہے اور تین قبرین اور باشاہزادون کی ہین۔​
قدسیہ باغ​
کشمیری دروازے کے باہر دریا کے کنارے یہ باغ ہے ۔ اودہم بائی زوجہ محمد شاہ بادشاہ والدہ احمد شاہ کا جبکہ احمد شاہ بادشاہ ہوا تو ان کو خطاب نواب بائی کا ملا اور پھر نواب قدسیہ صاحب الزمانی کا خطاب ملا۔ چنانچہ اونھون نے اپنے نام پر یہ باغ تخمیناً 1162 ہجری مطابق 1748 عیسوی کے بنایا۔ اس باغ کا برج بہت خوشنما ہے اور اوسکے اندر ایک بارہ دری سنگین اور ایک مسجد بہت خوبصورت بنی ہوئی موجود ہے۔​
چوبی مسجد​
یہ مسجد احمد شاہ بادشاہ نے 1164 ہجری مطابق 1750 عیسوی کے قلعہ شاہجہان مین بنائی تھی۔ اسکے ستون اور محرابین سب کے سب چوبی تھین۔ اس سبب سے چوبی مسجد کرکر مشہور ہے مگر وہ مسجد بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ 1850 عیسوی مطابق 1267 ہجری یہ مسجد سرکار کی طرف سے پھر بنی ہے۔​
سُنہری مسجد​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۳
شہر شاہجہان آباد مین قلعہ کے نیچے یہ ایک مسجد ہے۔ بہت خوبصورت۔ سر سے پانؤن تک سنگ باسی کی بنی ہوئی اور دو مینار ہین اسکے وہ بھی نہایت خوبصورت ہین۔ تمام کلسیان اسکی سُنہری ہین اور تینون برج بھی سُنہری تھے مگر برج ٹوٹ گئے تھے۔ اسواسطے 1269 ہجری مطابق 1852 عیسوی مین بہادر شاہ بادشاہ نے اون برجون کو اوتار کے سنگ باسی کے برج اوسکی جگہ لگا دیے ہین اس مسجد کو 1165 ہجری مطابق 1751 عیسوی کے جاوید خان خواجہ سرا نے جو نواب قدسیہ احمد شاہ کی مان کا بہت مقرب تھا اور اسی سبب سے نواب بہادر اوسکو خطاب ملا تھا بنایا ہے۔ اس مسجد مین ایک حوض بھی تھا مگر اب اوسمین پانی نہین آتا۔ اس مسجد کی پیشانی پر تاریخ کندہ ہے۔​
مقبرہ منصور یا صفدر جنگ​
یہ مقبرہ ہے ابو المنصور خان بہادر صفدر جنگ کا جو احمد شاہ بادشاہ کے وزیر تھے۔ جبکہ سترھوین ذی الحجہ 1167 ہجری مطابق 1753 عیسوی کے انکا انتقال ہوا تو اس مقام پر اون کو دفن کیا اور نواب شجاع الدولہ اونکے بیٹے نے شیدی بلال محمد خان کے اہتمام مین تین لاکھ 300000 روپیہ خرچ کر کر یہ مقبرہ بنایا۔ یہ مقبرہ نہایت خوبصورت ہے۔ سر سے پانؤن تک سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے اور جابجا سنگ مرمر کی دھاریان اور چوکے لگے ہوئے ہین۔ برج اسکا تمام سنگ مرمر​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۴
کا ہے اور اندر بھی اجارے تک سنگ مرمر لگا ہوا ہے۔ قبر کا تعویذ بھی سنگ مرمر کا ہے۔ اوسکے نیچے ایک تہ خانہ ہے جسمین اصل قبر بنی ہوئی ہے۔ عمارت اسکی ایسی نازک اور باریک ہے کہ اپنا نظیر نہین رکھتی۔ تقسیم مکانات کی بھی بہت اچھی طرح پُر کی ہے۔ چار دیواری چونے اور پتھر سے کھینچی ہے اور اوسمین باغ آراستہ ہے اور چارون طرف نہرین اور حوض بنے ہوئے ہین۔ باغ کے تین طرف مکانات دلکشا بنائے ہین۔ جنوبی مکان موتی محل کے نام سے مشہور ہے اور غربی مکان جنگلی محل کے نام سے اور شمالی مکان بادشاہ پسند کے نام سے۔ ضلع مشرقی مین دروازہ ہے بہت بلند اور اوس دروازے مین طرح طرح کے مکانات اور شہ نشینین بنی ہوئی ہین اور دروازے کے پاس ایک مسجد ہے نری سنگ سرخ کی چاردیواری کے چارون کونون پر چار برجیان ہین اور اونمین بہت باریک جالی سنگ سرخ کی لگائی ہے کہ اوسکے سبب بہت بہار معلوم ہوتی ہے۔ مقبرے کے اندر تاریخ کندہ ہے۔​
کالکا​
موضع بہاپور کی سرحد مین شاہجہان آباد سے چھ 6 کوس جنوب کیطرف یہ مندر ہے۔ ہندؤن کے اعتقاد مین کسی فرضی زمانے مین سنبہہ اور نسبہہ دو راگچھس تھے۔ اونھون نے اوس زمانے کے دیوتاؤن کو بہت ستایا تھا۔ جب برہما تک فریاد وگئے تو اوسنے کہا کہ مجھسے تو تمھاری رچھا نہین ہوتی تم مہامائی​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۵
یعنی پاربتی کا استوت کرو، وہ تمھاری سہاتیا کریگی۔ جب اون دیوتاؤن نے مہمامائی کا استوت کیا تو مہمامائی کے مُنھ مین سے ایک دیبی پیدا ہوئی۔ کوشکی اوسکا نام تھا۔ اوس دیبی نے دونون راکچھسون کے ایک سردار کو جسکا نام رکت بنچ تھا مارا۔ اوسکے لہو کی بوندون سے بے انتہا راکچھس پیدا ہو گئے۔ تب کوشکی دیبی کی بھون مین سے کالی دیبی پیدا ہوئی۔ اوسکا ایک ھونٹ پربت پر تھا اور دوسرا اکاس مین۔ جسکو کوشکی مارتی تھی کالی اوسکا لہو زمین پر گرنے نہین دیتی تھی۔ دوآپرجک کے اخیر مین جسکو آجتک چار ہزار نو سو ترپن 4953 برس ہوئے کالی دینی نے اس پہاڑ پر اپنا استہان کیا۔ جب سے یہان پرستش ہوتی ہے مگر یہ مندر سمت 1821 باکرماجیت مطابق 1178 ہجری موافق 1764 عیسوی کے بنا ہے۔ پہلے پہل اس مقام پر لداؤ کی بارہ دری تھی اور مورت کے گرد جو بن گڑھا پتھر ہے سنگ سرخ اور سنگ مرمر کا کٹہرا بنا اوسکے بائین طرف یدنی کا نام اور سمت کندہ ہین۔ 1232 ہجری مطابق 1816 عیسوی کے راجہ کدار ناتھ نے جو محمد اکبر شاہ بادشاہ ثانی کے عہد مین نظارت کے پیشکار تھے اوس لداؤ پر یہ برج لنبا بنایا اور چھتیس 36 در کی غلام گردش اوسکے گرد بنوا دی۔ اب اس مقام پر بہت مکانات مہاجنون نے میلے مین اوترنے کے لیے بنائے ہین۔ چیت کی استمین اور اسوچکی استین کو اس مقام پر چھمائی کا بڑی دھوم سے میلہ ہوتا ہے۔ اس مندر کے دروازے کے​

 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۶
آگے سنگ سرخ کے دو شیر اور ایک ترشول بنا ہوا ہے اور شیرون پر بڑا گھنٹا لٹکتا ہے۔ جاتری اوس گھنٹے کو بلاتے ہین اور دیبی مائی کی جَے کہکر چلاتے ہین۔ ہندؤن کو اعتقاد ہے کہ شیرون کی رتھ پر سوار ہو کر دیبی جی یہان پدہاری ہین اس اس سبب سے شیرون کی مورت دروازے کے آگے بنائی ہے۔ اس مندر کے پوجاری دونون وقت پوجا کرتے ہین اور گیارہ 11 بجے دن کے دیبی جی کو بھوگ لگاتے ہین۔ اس پتھر کو لال لال کپڑے گوٹہ کنارے لگے ہوئے پہنا رکھے ہین اور ایک پلنگڑی بنا رکھی ہے۔ رات کو پلنگڑی سجا کر دیبی جی کے کٹہرے مین رکھدیتے ہین اور یہ اعتقاد رکھتے ہین کی دیبی جی رات کو اسپر سُکھ فرماتی ہین۔ کٹہرے کے اوپر دن رات بارہ مہینے گھی کا چراغ جلتا رکھتے ہین اور دیبی جی کی جوت اوسکو کہتے ہین اور چراغ کا بجھنا بہت بُرا جانتے ہین۔ جاتریون کی جب مراد آتی ہے تو دیبی جی پر چھتر اور شامیانے چڑھاتے ہیں۔​
ع : ہر قوم راست رائی دینی و قبلہ گاہی​
لال بنگلہ​
پُرانے قلعہ کے قریب یہ مقبرہ ہے لال کنور شاہ عالم کی مان کا قریب 1193 ہجری مطابق 1779 عیسوی کے شاہ عالم نے یہ مقبرہ بنایا۔ چھوٹے گنبد مین تو لال کنور کی قبر ہے اور بڑے گنبد مین بیگم جان شاہ عالم کی بیٹی کی قبر ہے۔ یہ دونون گنبد مع دالانون کے نرے سنگ سرخ کے ہین۔ خواہ اس سبب سے اور خواہ​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۷
لال کنور کے دفن ہونے کے سبب سے لال بنگلے کے نام سے مشہور ہے۔ اب اس نواح مین بہت سے قبرین خاندان تیموریہ ہو گئی ہین۔ اسکے صحن مین ایک محجر نواب فتح آبادی بیگم اور ایک محجر میرزا بلاقی کا حال مین بہادر شاہ بادشاہ ثانی نے بنایا ہے۔​
مقبرہ نجف خان​
شاہ مردان کے پاس نواب ذوالفقار الدولہ میرزا نجف خان بہادر کا مقبرہ ہے جو میرزا محسن صفدر جنگ کے بھائی کے سالے تھے۔ جبکہ 1195 ہجری مطابق 1780 عیسوی مین انکا انتقال ہوا تو اس مقام پر دفن کیا۔ یہ مقبرہ کچھ نفیس نہین ہے۔ چونے پتھر سے بنا ہوا ہے مگر اخیر زمانے کے ایک نامی سردار کی قبر ہے۔​
جینیون کا بڑا مندر​
شہر شاہجہان آباد مین دھرم پورے کے محلے مین لالہ ہرسکھراے اور لالہ موہن لعل مہاجنون نے یہ مندر بنایا ہے۔ سمت 1857 بکرما جیت مطابق 1800 عیسوی موافق 1215 ہجری یہ مندر بننا شروع ہوا اور آٹھ برس کے عرصے مین بنکر تیار ہوا۔ سراؤگیون کی پہلی پوجا اس مندر مین متی بیساکھ سدی تیج سمت 1864 مطابق 1807 عیسوی کے ہوئی۔ یہ مندر چونے اور اینٹ کا بنا ہوا ہے اور اوسکے اندر اکثر سنگ مرمر لگا ہوا ہے۔ کلس بالکل سُنہری ہین۔ پانچ لاکھ روپے اس مندر کی تیاری مین خرچ ہوئے ہین۔ کہتے ہین کہ اس مندر مین سوا لاکھ روپے کی​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۸
تیاری کی صرف ایک بیدی ہے۔​
گرجا گھر​
کشمیری دروازے کے پاس شہر شاہجہان کے اندر یہ گرجا گھر ہے۔ اس مسیحی مسجد کو کرنیل جمس اسکنر صاحب بہادر نے بنایا ہے۔ تعمیر اسکی 1826 عیسوی مطابق 1242 ہجری مین شروع ہوئی اور دس برس کے عرصے مین نوے ہزار 90000 روپیہ خرچ ہو کر تیار ہوا اور سنگ مرمر جو اسکے اندر بجائے فرش کے لگا ہوا ہے وہ اس لاگت سے علٰحدہ ہے۔ اس کی عمارت کی خوبی اور خوشنمائی بیان سے باہر ہے۔ حقیقت میں یہ بات ہے کہ ایسا خوبصورت گرجا گھر بہت کم ہو گا۔ اسکا کلس کہ شکل صلیب پر ہے بہت خوبصورت اور نرا سُنہری ہے اور اسکا گنبد اور اندر کے کمرے بہت خوبصورتی سے بنائے ہیں۔ اسی گرجا کے صحن مین ولیم صاحب کی قبر ہے اور اوسکے گرد نہایت خوبصورت آہنی کٹہرا لگا ہوا ہے۔​
جوگ مایا​
قطب صاحب کی لاٹھ کے پاس یہ مندر ہے۔ بہت نامی ہندؤن کے اعتقاد مین یہ بات ہے کہ جب کنس راکچھس نے بہت سر اوٹھایا تو برہما نے کرشن اوتار ہونے کی خبر دی۔ اخیر دواپر جگ مین جسکو ہندی حساب سے چار ہزار نو سو ترپن برس ہوئے بسدیو کے یہان دیوکی رانی کے پیٹ سے کرشن اوتار نے جنم لیا۔ کنس کے ڈر کے مارے کرشن کو گوگل مین تندجا عرف جسودھا کے پاس​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۹۹
ڈال آئے اور جسودھا کی بیٹھی کو متھرا مین اوٹھا لئے۔ کنس نے اوس بیٹی کو اوٹھا کر زمین پر دے مارنا چاہا کہ وہ بجلی ہو کر اوڑ گئی اور یہ اوسکا استہان ہے۔ مگر یہ مندر بہت قریب کا بنا ہوا ہے۔ 1243 ہجری مطابق 1827 عیسوی مین راجہ سیڈھمل نے جو اکبر شاہ ثانی کے نوکر تھے اس مندر کو بنایا۔ یہ مندر چونے اینٹ پتھر سے بنا ہوا ہے۔ زمین سے چوٹی تک اکتالیس 41 فٹ اونچا ہے اور کلس پر آئینہ لگایا ہے۔ اس مندر مین بھی مورت نہین ہے۔ بن گڑھا پتھر ہے اور اوسکے گرد سنگ مرمر کا تھانولہ بنا ہوا ہے۔ اونسی پتھر کو پوجتے ہین۔ ہر ہفتے یہان میلہ ہوتا ہے۔ بنیے اس مندر کو بہت مانتے ہین کیونکہ چڑھاوتے مین یہان جیو نہین چڑھتا۔​
جینیون کا چھوٹا مندر​
شہر شاہجہان آباد مین ستھ کی گلی مین یہ مندر ہے۔ اس مندر کو سارے شہر کے سراؤگیون نے ملکر بنایا ہے اور پنچائتی مندر کہلاتا ہے۔ اس مندر کی تیاری پوہ سُدی دوج سمت 1885 مطابق 1828 عیسوی موافق 1244 ہجری کے شروع ہوئی اور سات برس کے عرصے مین بن چکا۔ متی منکسر بدی تردوشی سمت 1891 مطابق 1834 عیسوی کے سراؤگیون کے مذہب کے موافق اس مندر مین مہاراج براجوان ہوئے۔ یہ مندر بھی چونے اینٹ کا بنا ہوا ہے اور اندر اکثر جگہ سنگ مرمر لگا ہوا ہے اور کلس اس مندر کے بھی بالکل سُنہرے ہین۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۰
اس مندر کی تیاری مین بھی کئی لاکھ روپے خرچ ہوئے ہین۔​
کوٹھی جہان نما​
اس کوٹھی کو جو بیرون کشمیری دروازہ واقع ہے حاکم رئیس پرور معظم الدولہ امین الملک اختصاص یار خان فرزند ارجمند بجان پیوند سلطانی سرطامس سیافلس متکف صاحب باورنٹ بہادر فیروز جنگ صاحب کلان دارالخلافت شاہجہان آباد نے 1828 عیسوی مطابق 1244 ہجری بنانا شروع کیا اور یہ کوٹھی نہایت خوبصورت اور خوش وضع بنی ہے اور درحقیقت اس شعر کے مصداق ہے۔​
زہی صفای عمارت کہ درتماشایس​
بدیدہ باز نگر دو نگاہ از دیوار​
محجر میرزا جہانگیر​
میرا جہانگیر بیٹے ہین محمد اکبر شاہ بادشاہ ثانی کے۔ جب آلہ آباد مین اون کا انتقال ہوا تو لاش اونکی یہان لا کر متصل صحن درگاہ حضرت نظام الدین دفن کیا۔ 1248 ہجری مطابق 1832 عیسوی کے نواب ممتاز محل اونکی مان نے یہ محجر بنایا۔ محجر نرا سنگ مرمر کا ہے اور اوسمین بہت باریک کام کیا ہوا ہے۔ جالیان بھی بہت خوبصورت ہین۔ اسکے دروازے مین بھی دو پٹ ایک ڈال نرے سنگ مرمر کے چڑھے ہوئے ہین۔​
ظفر محل یا جل محل​
قلعہ شاہجہان کے باغ حیات بخش مین جو حوض ہے اوسکے بیچون بیچ مین​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۱
ابو الظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ حال نے سن 6 جلوس مطابق 1258 ہجری موافق 1842 عیسوی ایک مکان بنایا ہے۔ نرا سنگ سرخ کا اور ظفر محل اوسکے بنے کی تاریخ ہے۔ اوسکے بیچ مین ایک درجہ ہے بطور کمرے کے اور چارونطرف غلام گردش ہے اور کونون پر حجرہ اور چارون ظلعون مین شہ نشین ہین۔ جانب شرق مکان کے ایک پُل بنایا ہے۔ اگرچہ یہ مکان بھی بہت اچھا بنایا ہے الا حوض کی وہ کیفیت نہین رہی۔​
ہیرا محل​
قلعہ شاہجہان مین موتی محل کے آگے نہر بہشت کے کنارے پر 1258 ہجری مطابق 1842 عیسوی کے ابو الظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ حال نے ایک بارہ دری نری سنگ مرمر کی بنائی ہے اور ہیرا محل اوسکا نام رکھا ہے۔ اس محل کے آگے جو قدیمی نہر مارپیج کی ہین اوسمین چوبیس فوارے چاندے کے تھے۔ وہ تو اب نہین رہے مگر نہر رہ گئی ہے۔ یہ محل بھی اس زمانے کے لائق بہت اچھا بنا ہے۔​
کوٹھی دلکشا​
قطب صاحب کے نواح مین یہ ایک سیرگاہ اور مکان دلکشا ہے۔ صاحب والا مناقب عالی مناصب فرزند ارجمند بجان پیوند سلطانی معظم الدولہ امین الملک اختصاص یار خان سرطامس سیافلس متکف صاحب بارونٹ بہادر فیروز جنگ صاحب کلان بہادر​
 
Top