آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست۔۔۔۔۔عبدالعزیز راقم

راقم

محفلین
اساتیذکرام، السلام علیکم۔
آپ کی ہدایات کی روشنی میں غزل میں کافی کاٹ چھانٹ کرنے کے بعد دوبارہ برائے ملاحظہ ارسال ہے۔
فونٹ کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
والسلام

ترمیم شدہ غزل:

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں، ہم کو یاد دلانے دوست

دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جو،محفل کو گر مانے دوست

کہتے ہیں کچھ، کرتے کچھ ہیں کیسا ہے ان کا دستُور
قول و عمل کے فرق سے ہم نے،اپنے ہیں پہچانے دوست

راقم اپنے غم کو بھلا کر بات سنو مظلوموں کی
جو آتے ہیں پاس تمھارے، اپنا درد سنانے دوست
 

الف عین

لائبریرین
افاعیل۔ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل/فع
آتے
ہی رہ
تے ہیں
اکثر
ان کے
ساتھس
یانے
لوگ
آخری فّل ہے، باقی سارے فعلن سات بار۔
غزل بحر میں ہے۔
اب ذرا پوسٹ مارٹم

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ سیانے لوگ
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں ہم کو یاد دلانے لوگ
یہاں دوسرے مصرعے میں "لوگ" غیر ضروری ہے، محض ردیف کی وجہ سے لایا جا رہا ہے۔

ہم کرتے ہیں چاند کی باتیں بیٹھ کے جب مَے خانے میں
پیتے پیتے چل پڑتے ہیں اُن کے ناز اٹھانے لوگ

چاند کی باتیں، مے پینے اور ان کے ناز اٹھانے میں تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔

کہتے ہیں کچھ، کرتے کچھ ہیں کیسا ہے ان کا دستُور
غیبت کرتے ہیں لوگوں کی اپنے عیب چھپانے لوگ
’عیب چھپانے لوگ‘ فصیح اردو محاورہ نہیں ہے، شاید مراد یوں ہے کہ ’اپنا عیب چھپانے کے لئے لوگ‘۔ ’کے لئے ‘ کی غیر موجودگی کھٹک رہی ہے۔

راقم اپنے غم کو بھلا کر بات سنو تم لوگوں کی
جو آتے ہیں تیرے گھر میں اپنا درد سنانے لوگ
پہلے مصرعے میں ’تم لوگوں کی‘ کا ذکر ہے، دوسرے مصرعے میں ’تیرے گھر‘۔ یہ غلط ہے، دونوں جگہ مطابقت ہونا چاہئے۔
 

راقم

محفلین
استادِ محترم کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں؟

اب ذرا پوسٹ مارٹم

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ سیانے لوگ
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں ہم کو یاد دلانے لوگ
یہاں دوسرے مصرعے میں "لوگ" غیر ضروری ہے، محض ردیف کی وجہ سے لایا جا رہا ہے۔
(اس کا کوئی حل/تجویز؟)

ہم کرتے ہیں چاند کی باتیں بیٹھ کے جب مَے خانے میں
پیتے پیتے چل پڑتے ہیں اُن کے ناز اٹھانے لوگ

چاند کی باتیں، مے پینے اور ان کے ناز اٹھانے میں تعلق سمجھ میں نہیں آتا۔
( اس کو بعد میں تبدیل کر دوں گا)


کہتے ہیں کچھ، کرتے کچھ ہیں کیسا ہے ان کا دستُور
غیبت کرتے ہیں لوگوں کی اپنے عیب چھپانے لوگ
’عیب چھپانے لوگ‘ فصیح اردو محاورہ نہیں ہے، شاید مراد یوں ہے کہ ’اپنا عیب چھپانے کے لئے لوگ‘۔ ’کے لئے ‘ کی غیر موجودگی کھٹک رہی ہے۔
(اس کا کوئی حل یا تجویز؟)

راقم اپنے غم کو بھلا کر بات سنو تم لوگوں کی
جو آتے ہیں تیرے گھر میں اپنا درد سنانے لوگ
پہلے مصرعے میں ’تم لوگوں کی‘ کا ذکر ہے، دوسرے مصرعے میں ’تیرے گھر‘۔ یہ غلط ہے، دونوں جگہ مطابقت ہونا چاہئے۔
( اگر'' تیرے گھر میں ''کو ''پاس تمھارے'' سے تبدیل کیا جائے تو مناسب ہو گا؟)

السّلام علیکم استادِ محترم!
میں نے آتے ہی آپ کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹیں دیکھی تھیں اور بے چینی سے آپ کا انتظار تھا۔
آج میں بہت خوش ہوں کہ بالآخر آپ کی نظر التفات مجھ پر بھی پڑ ہی گئی۔ میرے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ بہت ممنون ہوں۔
امید ہے کچھ وقت نکال کر اسی طرح پوسٹ مارٹم کرتے رہیں گے۔
آپ کا اور محترم مغل صاحب کا بہت شکریہ کہ گونا گوں مصروفیات کے باوجود آپ اس خاکسار کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔
آپ کے یہ پوسٹ مارٹم میرے لیے مشعلِ راہ کا کام کریں گے۔
جو کچھ بھی میں اس محفل میں بھیج رہا ہوں یہ تقریباً بیس پچیس سال پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ میں اس میں کوئی تبدیلی کیے بغیر بھیجتا ہوں تاکہ مجھے یہ علم ہو سکے کہ یہ علم عروض کے قواعد پر پورا بھی اترتا ہے یا نہیں۔
آپ سے ایک التجا ہے کہ اگر ممکن ہو تو متبال لفظ/الفاظ بھی بتا دیا کیجیے ۔
وقت مل سکے تو میرا تعارف بھی دیکھ لیجیے گا تاکہ آپ اپنے نئے شاگرد کی زیادہ اچھے طریقے سے رہنمائی کر سکیں ۔
ہو سکے تو پہلی دو غزلوں کے بارے میں بھی اپنی رائے یا مغل صاحب کے تجزیے میں کچھ اضافہ کر دیجیے گا۔
پوسٹ مارٹم کی ترتیب اگر اس طرح ہو جائے تو مہربانی ہو گی۔
۱۔ غزل بحر میں ہے یا نہیں؟
۲۔ اگر بحر میں ہے تو بحر کا نام
۳۔ بحر کے اوزان یا اراکین
۴۔ کم از کم ایک شعر کی تقطیع
۵۔ تفصیلی پوسٹ مارٹم مع ہدایات /سفارشات و تجاویز
۶۔ ہندسی تقطیع
اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
والسّلام
آپ کا نادیدہ شاگرد( پتا نہیں یہ لفظ درست بھی ہے کہ نہیں)
 

الف عین

لائبریرین
راقم صاحب، بھائی عروض کے معاملے میں تو میں بھی طفل مکتب ہوں، یعنی بحروں کے نام وغیرہ سے تقریباً نا بلد، تقطیع اور افاعیل ضرور بتا سکتا ہوں لیکن یہ عروض کی ادھوری تفصیل ہو گی، بہتر ہے کہ یہ بھائی وارث ہی کیا کریں، اس معاملے میں ان کو بھی استاد مانتا ہوں۔ بحر میں تو غزلیں ضرور ہیں آپ کی، محمود مغل نے جو کچھ لکھا ہے دوسرے دھاگے میں، ان سے متفق ہوں، شاعری محض اس لئے نہیں کی جانی چاہئے کہ شاعری کرنا ہے۔ اگر واقعی آپ کے پاس کچھ کہنے کے لئے ہو تو ضرور کہیں۔ محض کلام موزوں شاعری تو ہو سکتا ہے، لیکن اچھی شاعری نہیں۔ کلام موزوں تو نصف آبادی کہہ سکتی ہے، لیکن یاد رہ جانے والی شاعری کی کوشش ہونی چاہئے۔ آپ میں صلاحیتیں یقینا ہیں، اور اس سلسلے میں آپ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ اور محض اسی وجہ سے میں نوالہ توڑ کر نہیں دے رہا ہوں، محض ممکنہ غلطی یا کمی کی نشان دہی، آپ خود کچھ تبدیلی کر کے پوچھ سکتے ہیں، میں اس تبدیلی پر رائے دے سکتا ہوں کہ ان میں سے واقعی کون سی تبدیلی بہتر رہے گی۔ اس لئے آپ کے سوال ’(اس کا کوئی حل/تجویز؟)‘ کے جواب سے معذرت۔
(لیکن ’اگر'' تیرے گھر میں ''کو ''پاس تمھارے'' سے تبدیل کیا جائے تو مناسب ہو گا؟‘ کا جواب دے سکتا ہوں، یہ واقعی بہتر ہے(
ویسے آپ سینئر آدمی ہیں۔ اتنی کسرِ نفسی کی ضرورت نہیں ہے کہ با قاعدہ استاد یا شاگرد کا رشتہ رکھا جائے۔
 

راقم

محفلین
ترمیم در غزل "آتے ہی رہتے ہیں اکثر۔۔۔۔

راقم صاحب، بھائی عروض کے معاملے میں تو میں بھی طفل مکتب ہوں، یعنی بحروں کے نام وغیرہ سے تقریباً نا بلد، تقطیع اور افاعیل ضرور بتا سکتا ہوں لیکن یہ عروض کی ادھوری تفصیل ہو گی، بہتر ہے کہ یہ بھائی وارث ہی کیا کریں، اس معاملے میں ان کو بھی استاد مانتا ہوں۔ بحر میں تو غزلیں ضرور ہیں آپ کی، محمود مغل نے جو کچھ لکھا ہے دوسرے دھاگے میں، ان سے متفق ہوں، شاعری محض اس لئے نہیں کی جانی چاہئے کہ شاعری کرنا ہے۔ اگر واقعی آپ کے پاس کچھ کہنے کے لئے ہو تو ضرور کہیں۔ محض کلام موزوں شاعری تو ہو سکتا ہے، لیکن اچھی شاعری نہیں۔ کلام موزوں تو نصف آبادی کہہ سکتی ہے، لیکن یاد رہ جانے والی شاعری کی کوشش ہونی چاہئے۔ آپ میں صلاحیتیں یقینا ہیں، اور اس سلسلے میں آپ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ اور محض اسی وجہ سے میں نوالہ توڑ کر نہیں دے رہا ہوں، محض ممکنہ غلطی یا کمی کی نشان دہی، آپ خود کچھ تبدیلی کر کے پوچھ سکتے ہیں، میں اس تبدیلی پر رائے دے سکتا ہوں کہ ان میں سے واقعی کون سی تبدیلی بہتر رہے گی۔ اس لئے آپ کے سوال ’(اس کا کوئی حل/تجویز؟)‘ کے جواب سے معذرت۔
(لیکن ’اگر'' تیرے گھر میں ''کو ''پاس تمھارے'' سے تبدیل کیا جائے تو مناسب ہو گا؟‘ کا جواب دے سکتا ہوں، یہ واقعی بہتر ہے(
ویسے آپ سینئر آدمی ہیں۔ اتنی کسرِ نفسی کی ضرورت نہیں ہے کہ با قاعدہ استاد یا شاگرد کا رشتہ رکھا جائے۔

استاذِ محترم اب غزل ملاحظہ فرما کر عملِ جراحی شروع کیجیے۔
کی گئی ترامیم کو سرخ کیا گیا ہے۔آپ کے تبصرے کا منتظر ہوں۔ اللہ کرے کہیں سے وارث صاحب بھی تشریف لے آئیں۔ کافی دنوں سے وہ بھی کم ہی آتے ہیں۔
والسلام

ترمیم شدہ غزل:

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں، ہم کو یاد دلانے دوست

دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جو،محفل کو گر مانے دوست

کہتے ہیں کچھ، کرتے کچھ ہیں کیسا ہے ان کا دستُور
قول و عمل کے فرق سے ہم نے،اپنے ہیں پہچانے دوست

راقم اپنے غم کو بھلا کر بات سنو مظلوموں کی
جو آتے ہیں پاس تمھارے، اپنا درد سنانے دوست
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ اصل پوسٹ میں تبدیلی نہ کیا کریں تو بہت ہے، تاکہ یہ تو معلوم ہو جائے کہ یہ کن کن اعتراضات کی وجہ سے اصلاح کی گئی ہے۔ وہ تو میں نے پہلے اپنے ’پوسٹ مارٹم‘ میں تمہاری اصل غزل پوسٹ کی تھی تو دیکھ سکا۔ لیکن میرا یہ اعتراض اب بھی قائم ہے۔ کہ اکثر ردیف میں’ لوگ‘ محض بھرتی کا ہے۔ ’ضرورتِ شعری‘ اس کو نہیں کہتے۔
ہاں یہ بات لکھنی بھول گیا کہ یہ ساڑھے سات رکنی بحر ہے جس میں اچھے اچھوں سے اغلاط ہوتی ہیں، لیکن اس لحاظ سے یہ مکمل درست ہے، کہیں سات یا آٹھ ارکان نہیں ہیں۔ مبارک ہو۔
اب محض اغلاط کی نشان دہی

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں، ہم کو یاد دلانے دوست
دونوں مصرعوں میں تطابق نہیں، دوسرے مصرع میں ردیف کی وجہ سے دوست کا استعمال

دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جو،محفل کو گر مانے دوست
ردیف۔ ایضاً، مفہوم؟
باقی اشعار درست ہیں۔
 

راقم

محفلین
استاذِ محترم یہ غلطیاں تو کافی سرزد ہو چکی ہیں۔

پہلی بات تو یہ اصل پوسٹ میں تبدیلی نہ کیا کریں تو بہت ہے، تاکہ یہ تو معلوم ہو جائے کہ یہ کن کن اعتراضات کی وجہ سے اصلاح کی گئی ہے۔ وہ تو میں نے پہلے اپنے ’پوسٹ مارٹم‘ میں تمہاری اصل غزل پوسٹ کی تھی تو دیکھ سکا۔ لیکن میرا یہ اعتراض اب بھی قائم ہے۔ کہ اکثر ردیف میں’ لوگ‘ محض بھرتی کا ہے۔ ’ضرورتِ شعری‘ اس کو نہیں کہتے۔
ہاں یہ بات لکھنی بھول گیا کہ یہ ساڑھے سات رکنی بحر ہے جس میں اچھے اچھوں سے اغلاط ہوتی ہیں، لیکن اس لحاظ سے یہ مکمل درست ہے، کہیں سات یا آٹھ ارکان نہیں ہیں۔ مبارک ہو۔
اب محض اغلاط کی نشان دہی

آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں، ہم کو یاد دلانے دوست
دونوں مصرعوں میں تطابق نہیں، دوسرے مصرع میں ردیف کی وجہ سے دوست کا استعمال

دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جو،محفل کو گر مانے دوست
ردیف۔ ایضاً، مفہوم؟
باقی اشعار درست ہیں۔

السلام علیکم،استاذِ محترم!
فونٹ کا مسئلہ بھی تھا تو میں نے یہ سوچ کر کہ آپ کو اور دیگر ساتھیوں کو فونٹ کی وجہ سے پریشانی ہو رہی ہے اس لیے اصل غزل کو قطع و برید کے بعد دوبارہ بھیج دیا۔ اس کی معافی مل جائے تو یہ غلطی پھر نہیں کروں گا۔ البتہ فونٹ کی ترمیم کرنا ضروری ہے۔

ساڑھے سات رکنی بحر کا پہلی دفعہ آپ سے سن رہا ہوں۔ کیا بات ہے کتنا بڑا تیر مار لیا اور مجھے خبر تک نہیں۔
ویسے استاذَ محترم! اس طرح کا کام کس کس نے کیا ہے؟ کیا یہ بحر عام استعمال میں آتی ہے یا بہت کم؟

دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جو،محفل کو گر مانے دوست

"درج بالا شعر کے دوسرے مصرعے میں "جو" کی جگہ "جب" لگا کر مفہوم اس طرح ہو گا کہ جب دوست بیٹھ کر چاند "محبوب" کی باتیں کر کے محفل کو گرما رہے ہوتے ہیں تو اسی وقت چاند"محبوب" نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے ان دوستوں کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے۔"


آتے ہی رہتے ہیں اکثر اُن کے ساتھ پرانے دوست
وہ باتیں جو بھول چکے ہیں، ہم کو یاد دلانے دوست

اس مسئلہ کا کوئی حل آپ ہی بتا دیجیے، یہ میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ اگر وارث صاحب یا م۔م۔مغل صاحب تشریف لے آئیں تو شاید کوئی حل نکل سکے۔ یا پھر اس شعر کو ہی بارہ پتھر باہر کر دیا جائے۔
دعاؤں میں یاد رکھیے۔
آپ کا تلمیذ
 

محمد وارث

لائبریرین
راقم صاحب یہ ہندی بحریں ہیں ان میں ایک سببِ خفیف کو سببِ ثقیل میں توڑا جا سکتا ہے اور یہی ان بحروں کا حسن ہے، اس میں ارکان بھی مختلف ہوتے ہیں کسی میں آٹھ سببِ خفیف، تو کسی میں بارہ، کسی میں چودہ، کسی میں پندرہ، کسی میں سولہ (واضح رہے کہ تعداد سببِ خفیف کی لکھی ہے، ارکان کی نہیں) اور آخر میں "ساڑھ" لگانے کی اجازت ہر جگہ ہوتی ہے، کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جتنے ارکان یا سببِ خفیف پہلے مصرعے میں منتخب کر لیے، ہر مصرعے میں اتنے ہی ہونے چاہیئں، اور یہی اسکا وزن ہے۔
 

راقم

محفلین
بہت خوب،استاذِ محترم!

راقم صاحب یہ ہندی بحریں ہیں ان میں ایک سببِ خفیف کو سببِ ثقیل میں توڑا جا سکتا ہے اور یہی ان بحروں کا حسن ہے، اس میں ارکان بھی مختلف ہوتے ہیں کسی میں آٹھ سببِ خفیف، تو کسی میں بارہ، کسی میں چودہ، کسی میں پندرہ، کسی میں سولہ (واضح رہے کہ تعداد سببِ خفیف کی لکھی ہے، ارکان کی نہیں) اور آخر میں "ساڑھ" لگانے کی اجازت ہر جگہ ہوتی ہے، کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جتنے ارکان یا سببِ خفیف پہلے مصرعے میں منتخب کر لیے، ہر مصرعے میں اتنے ہی ہونے چاہیئں، اور یہی اسکا وزن ہے۔

السلام علیکم، استاذِ محترم!
آپ نے مجھے ایک بالکل نئی بات بتائی ہے۔ مجھے ان بحروں یا ان کی ساخت کا بالکل علم نہیں تھا ۔
آپ کی اسی بات سے مجھے ایک بات یاد آ گئی ہے، آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ
میں جو کچھ لکھتا ہوں، اسے ایک ہی لَے میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، جہاں کہیں سوئی اٹک جاتی ہے وہاں تبدیلی کر کے دوبارہ گنگناتا ہوں۔ جب اس میں روانی آ جاتی ہے تو چھوڑ دیتا ہوں۔ بعض چھوٹی بحروں میں لکھی ہوئی غزلیں گُنگُناتے ہوئے بہت مزا آتا ہے۔ اسی لیے میری اکثر غزلیں چھوٹی بحروں میں ہی ہیں۔ پتا نہیں میرا یہ طریقہ درست ہے یا غلط؟ لیکن میں اسی پر عمل کرتا رہا ہوں۔
بس یہی ہے میری شاعری کا راز ۔
( نئے شعرا کو بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ جو لکھیں اسے ایک ہی لَے میں گُگُنائیں جب پوری غزل ایک ہی لَے میں ترنم سے پڑھی جائے گی تو اس کے ارکان اپنی جگہ خودبنا لیں گے۔ "اگر مشورہ غلط ہے تو ان کو منع کر دیجیے"۔
بس دو بحروں کا تھوڑا پتا ہے، ایک بحر ہزج مثمن سالم، اور دوسری متقارب مثمن سالم۔ باقی بحروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
میں افاعیل یا بحروں کے بارے میں اسی لیے پوچھتا رہتا ہوں کہ مجھے بھی پتا چلے کے غزل کے ارکان کیا ہیں اور کون سی بحر ہے؟
ان شا اللہ آپ کی رہنمائی رہی تو کچھ نہ کچھ سیکھ لوں گا۔
ان معلومات کے لیے پھر شکریہ۔
والسلام
 

الف عین

لائبریرین
چاند کی بات والا شعر تو ’جب‘ سے معنی خیز ہو جاتا ہے، لیکن مطلع تو میرے خیال میں دوبارہ ہی کہیں تو بہتر ہو۔
 

راقم

محفلین
چاند کی بات والا شعر تو ’جب‘ سے معنی خیز ہو جاتا ہے، لیکن مطلع تو میرے خیال میں دوبارہ ہی کہیں تو بہتر ہو۔

استاذِ محترم، السلام علیکم!

مطلع میں ترمیم تو کر دی ہے لیکن کچھ مطمئن نہیں ہوں۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟
دوسرے مصرعے میں آپ کے حکم پر "جو" کی بجائے "جب" کر دیا ہے۔


آتے ہیں محفل میں تمھاری ،تیرے ناز اٹھانے دوست
جو جو باتیں تم بھول چکے ہو،تم کو یاد دلانے دوست


دور افق میں چھپ جاتا ہے،کر کے خون ارمانوں کا
چاند کی باتیں کرتے ہیں جب،محفل کو گر مانے دوست
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم، استاذِ محترم!
آپ نے مجھے ایک بالکل نئی بات بتائی ہے۔ مجھے ان بحروں یا ان کی ساخت کا بالکل علم نہیں تھا ۔
آپ کی اسی بات سے مجھے ایک بات یاد آ گئی ہے، آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ
میں جو کچھ لکھتا ہوں، اسے ایک ہی لَے میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں، جہاں کہیں سوئی اٹک جاتی ہے وہاں تبدیلی کر کے دوبارہ گنگناتا ہوں۔ جب اس میں روانی آ جاتی ہے تو چھوڑ دیتا ہوں۔ بعض چھوٹی بحروں میں لکھی ہوئی غزلیں گُنگُناتے ہوئے بہت مزا آتا ہے۔ اسی لیے میری اکثر غزلیں چھوٹی بحروں میں ہی ہیں۔ پتا نہیں میرا یہ طریقہ درست ہے یا غلط؟ لیکن میں اسی پر عمل کرتا رہا ہوں۔
بس یہی ہے میری شاعری کا راز ۔
( نئے شعرا کو بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ جو لکھیں اسے ایک ہی لَے میں گُگُنائیں جب پوری غزل ایک ہی لَے میں ترنم سے پڑھی جائے گی تو اس کے ارکان اپنی جگہ خودبنا لیں گے۔ "اگر مشورہ غلط ہے تو ان کو منع کر دیجیے"۔
بس دو بحروں کا تھوڑا پتا ہے، ایک بحر ہزج مثمن سالم، اور دوسری متقارب مثمن سالم۔ باقی بحروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
میں افاعیل یا بحروں کے بارے میں اسی لیے پوچھتا رہتا ہوں کہ مجھے بھی پتا چلے کے غزل کے ارکان کیا ہیں اور کون سی بحر ہے؟
ان شا اللہ آپ کی رہنمائی رہی تو کچھ نہ کچھ سیکھ لوں گا۔
ان معلومات کے لیے پھر شکریہ۔
والسلام

بہت سارے دوست اسطرح کرتے ہیں کہ گنگنا کر وزن کا حساب کر لیتے ہیں، ابتدائی طور پر یہ ایک صائب مشورہ ہے لیکن بحور کا علم بھی لازم ہے کیونکہ بحروں میں جو رعایتیں یا اجازتیں ہوتی ہیں، جیسے ایک ایک بحر میں آٹھ آٹھ اوزان بھی جمع ہو سکتے ہیں ان کا علم ان کو جانے بغیر ہرگز نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ شاعری علمِ عروض کے سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض شاعری کو سامنے رکھ کر وضح کیا گیا تھا، اور بحور کی تعداد بیسیوں ہے، لہذا انسان جو بھی کلام شاعری کی نیت سے کرتا ہے اس میں سے اکثر و بیشتر کسی نہ کسی بحر میں جا پڑتا ہے کیونکہ بحور بھی انسان کی فطرت و کلام کو سامنے رکھ کر وضح کی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عموماً عروض سے نابلد شاعر بھی موزوں کلام کہتے ہیں۔
 

راقم

محفلین
بہت سارے دوست اسطرح کرتے ہیں کہ گنگنا کر وزن کا حساب کر لیتے ہیں، ابتدائی طور پر یہ ایک صائب مشورہ ہے لیکن بحور کا علم بھی لازم ہے کیونکہ بحروں میں جو رعایتیں یا اجازتیں ہوتی ہیں، جیسے ایک ایک بحر میں آٹھ آٹھ اوزان بھی جمع ہو سکتے ہیں ان کا علم ان کو جانے بغیر ہرگز نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ شاعری علمِ عروض کے سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض شاعری کو سامنے رکھ کر وضح کیا گیا تھا، اور بحور کی تعداد بیسیوں ہے، لہذا انسان جو بھی کلام شاعری کی نیت سے کرتا ہے اس میں سے اکثر و بیشتر کسی نہ کسی بحر میں جا پڑتا ہے کیونکہ بحور بھی انسان کی فطرت و کلام کو سامنے رکھ کر وضح کی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عموماً عروض سے نابلد شاعر بھی موزوں کلام کہتے ہیں۔

السلام علیکم، استاذِ محترم!
آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ"شاعری علمِ عروض کے سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ علمِ عروض شاعری کو سامنے رکھ کر وضح کیا گیا تھا"۔
اور "عموماً عروض سے نابلد شاعر بھی موزوں کلام کہتے ہیں"۔
میں قطعاً اس حق میں نہیں ہوں کہ علم عروض نہ سیکھا جائے۔ مجھے اپنے ہاں کے ایسے بہت سے شاعروں کا پتا ہے جو علم عروض کا نام ہی سے واقف نہیں۔ ان کی غزلیں مستطیل شکل کی ہوتی ہیں۔ اوزان، بحر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن صاحبِ کتاب ہیں۔ مجھے یہ کتابیں دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔
شاعر تو بے شمار مل جاتے ہیں لیکن علم عروض جاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
علم عروض کی سمجھ بوجھ کے بغیر واقعی بقول آپ کے"بحور کا علم بھی لازم ہے کیونکہ بحروں میں جو رعایتیں یا اجازتیں ہوتی ہیں، جیسے ایک ایک بحر میں آٹھ آٹھ اوزان بھی جمع ہو سکتے ہیں ان کا علم ان کو جانے بغیر ہرگز نہیں ہوتا"۔
میں اس غزل کا مطلع فی الحال خارج کر رہا ہوں اگر کچھ بن گیا تو شامل کر دوں گا۔ محترم اعجاز صاحب بھی مطلع سے مطمئن نہیں تھے اور میں خود بھی اس کو بہتر نہیں کر سکا۔
"دوست" کی وجہ سے معاملہ پیچیدہ ہو گیا تھا۔
رہنمائی فرماتے رہیے گا۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
راقم صاحب، بھائی عروض کے معاملے میں تو میں بھی طفل مکتب ہوں، یعنی بحروں کے نام وغیرہ سے تقریباً نا بلد، تقطیع اور افاعیل ضرور بتا سکتا ہوں لیکن یہ عروض کی ادھوری تفصیل ہو گی، بہتر ہے کہ یہ بھائی وارث ہی کیا کریں، اس معاملے میں ان کو بھی استاد مانتا ہوں۔ بحر میں تو غزلیں ضرور ہیں آپ کی، محمود مغل نے جو کچھ لکھا ہے دوسرے دھاگے میں، ان سے متفق ہوں، شاعری محض اس لئے نہیں کی جانی چاہئے کہ شاعری کرنا ہے۔ اگر واقعی آپ کے پاس کچھ کہنے کے لئے ہو تو ضرور کہیں۔ محض کلام موزوں شاعری تو ہو سکتا ہے، لیکن اچھی شاعری نہیں۔ کلام موزوں تو نصف آبادی کہہ سکتی ہے، لیکن یاد رہ جانے والی شاعری کی کوشش ہونی چاہئے۔ آپ میں صلاحیتیں یقینا ہیں، اور اس سلسلے میں آپ کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ اور محض اسی وجہ سے میں نوالہ توڑ کر نہیں دے رہا ہوں، محض ممکنہ غلطی یا کمی کی نشان دہی، آپ خود کچھ تبدیلی کر کے پوچھ سکتے ہیں، میں اس تبدیلی پر رائے دے سکتا ہوں کہ ان میں سے واقعی کون سی تبدیلی بہتر رہے گی۔ اس لئے آپ کے سوال ’(اس کا کوئی حل/تجویز؟)‘ کے جواب سے معذرت۔
(لیکن ’اگر'' تیرے گھر میں ''کو ''پاس تمھارے'' سے تبدیل کیا جائے تو مناسب ہو گا؟‘ کا جواب دے سکتا ہوں، یہ واقعی بہتر ہے(
ویسے آپ سینئر آدمی ہیں۔ اتنی کسرِ نفسی کی ضرورت نہیں ہے کہ با قاعدہ استاد یا شاگرد کا رشتہ رکھا جائے۔

شکریہ باباجانی ، سیروں‌خون بڑھا دیا آپ نے ۔:battingeyelashes:
 

مغزل

محفلین
آپ سات کی بات کرتے ہیں راقم صاحب استاد قمر جلالوی کے ہاں آٹھ ارکان کی غزل بھی (8فعولن کی بحر میں) ملے گی ۔
مشہور غزل ’’ مریضِ محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے ‘‘
ایک اور غزل ’’ اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ تیرا ستارا نہیں ‘‘
۔ایک نعت کے چند شعر ملاحظہ کیجے اور دیکھیے یہ کتنی طویل بحرہے ۔شاعر رائے ادیب حسین پوری( مرحوم)۔

’’ عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اسرار کہ رہتے ہیں‌وہ توصیف و ثنائے شہہِ ابرار میں‌ہر لحظہ گہر بار
ورنہ وہ سیدِ عالی نصبی ، ہاں وہی امّی لقبی ، ہاشمی و مطلبی و عربی و مدنی و قرشی اور کہاں ہم سے گنہگار

آرزو یہ ہے کہ ہو قلب معطر و مطہر و منور و مجلیٰ و مصفی ٰ درِ‌اعلےٰ، جو نظرآئے کہیں جلو ۂ روئے شہہِ ابرار
جن کے قدموں کی چمک چاند ستاو رں میں نظر آئے ، جدھر سے وہ گزرجائیں ، وہی راہ چمک جائے، مہک جائے بنے رونقِ گلزار

یہ تمنا کہ سنوں میں بھی آوازِ شہہِ جن و بشر ، حق کی خبر ، خوشترو شیریں زشکر ، حسن ِ فصاحت کا گہر نطق کرے ناز سخن پر
وہ دل آرام صدا ، نامِ خد ا، جس پہ فدا ، غنچہ دہن ، طوطیِ صدرشکِ‌چمن ، مصرو یمن جس کے خریدار ‘‘


۔۔ اس سے بھی طویل مصرع ہمارے بزرگ ہمیں سناتے ہیں فی الحال پورا یاد نہیں میں بعد میں انشا اللہ پیش کروں گا۔
 
Top