"آؤ مشرف کو مل کر ماریں" طالبان کی بلوچ لبریشن آرمی کو پیشکش

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ کی اس بات سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک تحقیق کا معیار کیا ہے۔
انسان کو بہرحال حقیقت کی دنیا میں رہنا چاہئے اور حقیقت کی دنیا یہ ہے کہ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے اور وقت کی کتاب میں جو حقائق ایک بار لکھے جاتے ہیں انہیں پیچھے جاکر مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔
بالکل یاد رکھیے گا کہ وقت کی کتاب میں جو حقائق ایک بار لکھے جاتے ہیں انہیں پیچھے جا کر مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔
 

رانا

محفلین
بالکل یاد رکھیے گا کہ وقت کی کتاب میں جو حقائق ایک بار لکھے جاتے ہیں انہیں پیچھے جا کر مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔
متفق سوفیصد۔ لیکن میری حیرانی کی وجہ آپ کا تحقیق کا معیار بنی تھی۔ تحقیق و ثبوتوں کے اس معیار کو اگر تمام اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں سرکاری و انفرادی طور اپنا لیا جائے تو ہر دوسرا بندہ اسی کوڑوں کی سزا پاتا نظر آئے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ کی اس بات سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک تحقیق کا معیار کیا ہے۔
انسان کو بہرحال حقیقت کی دنیا میں رہنا چاہئے اور حقیقت کی دنیا یہ ہے کہ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے اور وقت کی کتاب میں جو حقائق ایک بار لکھے جاتے ہیں انہیں پیچھے جاکر مٹانا ممکن نہیں ہوتا۔
متفق دوسری لائن کے لئے دیا ہے :)
 

ظفری

لائبریرین
ایٹمی ٹیکنولوجی عبد القدیر خان کی مرہونِ منت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑے شیخی باز انسان ہیں (گستاخی معاف)۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اصل کام ڈوکٹر منیر احمد، ڈوکٹر ریاض الدین وغیرہ نے کیا تھا۔ ڈوکٹر عبد السلام بھی شروع میں اس پروجیکٹ پر تھے۔۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چوروں، شیخی بازوں اور دھوکے بازوں کو سر پر چڑھا لیتے ہیں اور اصل ہیروز کو بھول جاتے ہیں۔۔

مجھے تو ہمیشہ یہ بات سن کر سخت ترین چڑ ہوتی ہے کہ "پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان عبد القدیر خان۔۔۔ ۔۔۔ " اول تو یہ میٹلرجسٹ ہیں دوسرے انہوں نے ایٹم بم پر کچھ خاص کام نہیں کیا۔۔ وہ ٹیم ہی اور تھی۔۔۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر ثمر مبارک کا نام بھی بہت اہم ہے ۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے ڈاکٹر خان کی قلعی کھولتے ہوئے تیکنکی اعتبار سے ڈاکٹر قدیر کے کام کے بارے میں بھی بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ ان کی پہنچ کہاں تک تھی ۔
 
اس سلسلے میں ڈاکٹر ثمر مبارک کا نام بھی بہت اہم ہے ۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے ڈاکٹر خان کی قلعی کھولتے ہوئے تیکنکی اعتبار سے ڈاکٹر قدیر کے کام کے بارے میں بھی بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ ان کی پہنچ کہاں تک تھی ۔

ثمر مبارک مند کی پول جو جب ہی کھل گئی تھی جب انھوں نے پانی سے گاڑی چلنے کی حمایت کی تھی

ظفری بیٹے اؤ میں سمجھاتا ہوں۔ ہر معاملہ کا ایک کریٹیکل پوائنٹ ہوتا ہے۔ ثمر مبارک مند ہو یا اشفاق یا جرنیل مشرف۔ کون تھا جو یورینیم کے انرچمنٹ سے پہلے بم بنارہا تھا۔ جب ایک مرتبہ یورینیم اپنے مطلوبہ حد تک اینریچ ہوگیا ۔ تو پھر اس کے استعمال اور کئی کئی طرح سے میزائل میں رکھنے کے ہزار ہزار طریقہ ہونگے۔ مگر وہ نقطہ انتہا وہی افزودگی ہی ہوگی۔ او کے؟
 

سید ذیشان

محفلین
ثمر مبارک مند کی پول جو جب ہی کھل گئی تھی جب انھوں نے پانی سے گاڑی چلنے کی حمایت کی تھی

ظفری بیٹے اؤ میں سمجھاتا ہوں۔ ہر معاملہ کا ایک کریٹیکل پوائنٹ ہوتا ہے۔ ثمر مبارک مند ہو یا اشفاق یا جرنیل مشرف۔ کون تھا جو یورینیم کے انرچمنٹ سے پہلے بم بنارہا تھا۔ جب ایک مرتبہ یورینیم اپنے مطلوبہ حد تک اینریچ ہوگیا ۔ تو پھر اس کے استعمال اور کئی کئی طرح سے میزائل میں رکھنے کے ہزار ہزار طریقہ ہونگے۔ مگر وہ نقطہ انتہا وہی افزودگی ہی ہوگی۔ او کے؟

پہلی بات سے میں متفق ہوں کہ ثمر مبارک بھی سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کر رہا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سینٹریفیوج قدیر خان نے خود ڈیزائن کئے تھے یا یہ ڈیزائن کہیں سے لایا تھا؟
 
پہلی بات سے میں متفق ہوں کہ ثمر مبارک بھی سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کر رہا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سینٹریفیوج قدیر خان نے خود ڈیزائن کئے تھے یا یہ ڈیزائن کہیں سے لایا تھا؟

اہم بات یہ ہے کہ وہ پہلا ادمی ہے جس نے پاکستان کو بتایا کہ سنٹریفیوج کیسے کی جاتی ہے اور افزودگی ممکن ہے۔ پھر اس نے یہ کرکے بھی دکھادیا۔
میرے خیال میں قدیر نے یہ ری ڈیزائن کیے اور پہلی مرتبہ پاکستان میں اسمبل کرکے یورینیم کو فیزیبل اینریچمنٹ کردی۔ یہ بہت مشکل کام تھا اور یہ صرف قدیر ہی کرسکا۔
افزودگی کے روایتی طریقہ سے مطلوبہ حد تک افزودگی ممکن نہیں تھی جو بم بنانے کے کام ائے۔ ایک ادمی نے کام کردکھایا۔اس کے کام کو ماننا چاہیے۔ کیڑے نکالنے والے پاکستان میں بڑے ملیں گے۔
 

سید ذیشان

محفلین
اہم بات یہ ہے کہ وہ پہلا ادمی ہے جس نے پاکستان کو بتایا کہ سنٹریفیوج کیسے کی جاتی ہے اور افزودگی ممکن ہے۔ پھر اس نے یہ کرکے بھی دکھادیا۔
میرے خیال میں قدیر نے یہ ری ڈیزائن کیے اور پہلی مرتبہ پاکستان میں اسمبل کرکے یورینیم کو فیزیبل اینریچمنٹ کردی۔ یہ بہت مشکل کام تھا اور یہ صرف قدیر ہی کرسکا۔
افزودگی کے روایتی طریقہ سے مطلوبہ حد تک افزودگی ممکن نہیں تھی جو بم بنانے کے کام ائے۔ ایک ادمی نے کام کردکھایا۔اس کے کام کو ماننا چاہیے۔ کیڑے نکالنے والے پاکستان میں بڑے ملیں گے۔

اچھا تو جو یورپ سے لایا تھا وہ پھر کیا تھا اگر سینٹریفیوج اس نے خود ڈیزائن کئے تھے؟
 

محمد امین

لائبریرین
بھائیوں اس طرح تو ہم آپس میں لڑتے ہیں۔۔۔آئیے علمائے "امت" سے رجوع کرتے ہیں۔۔۔۔ کیا فرماتے ہیں علمائے "امتِ" متین بیچ اس مسئلے کے؟؟؟؟؟
 

عسکری

معطل
بھائیوں اس طرح تو ہم آپس میں لڑتے ہیں۔۔۔ آئیے علمائے "امت" سے رجوع کرتے ہیں۔۔۔ ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے "امتِ" متین بیچ اس مسئلے کے؟؟؟؟؟
اگر پوچھنا ہی ہے تو پھع امت سے کیوں ڈائریکٹ ضرب مومن سے نا پوچھ لیا جائے :whistle:
 

حسیب

محفلین
کچھ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ : وہ دشمن جو بظاہر دوست ہو، اس کے دانتوں کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ مقولہ نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام پر پوری طرح صادق آتا ہے جنھوں نے دوستی کی آڑ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

انھیں 10 دسمبر 1979ء کو نوبل پرائز ملا۔ قادیانی جماعت کے آرگن روزنامہ ’’الفضل‘‘ نے لکھا تھا کہ جب انھیں نوبل انعام کی خبر ملی تو وہ فوراً اپنی عبادت گاہ میں گئے اور اپنے متعلق مرزا قادیانی کی پیشین گوئی پر اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر مرزا قادیانی کی بعض عبارتوں کو کھینچ تان کر ڈاکٹر عبدالسلام پر چسپاں کیا گیا اور فخریہ انداز میں کہا گیا کہ یہ دنیا کا واحد موحد سائنس دان ہے جسے نوبل پرائز ملا ہے حالانکہ اسلام کی رو سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر بڑے سے بڑا موحد بھی کافر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر تھے۔ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی (جن سے انگریز نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نبوت کا اعلان کروایا تھا) کو اللہ کا آخری نبی مانتے تھے۔ اور اس طرح وہ اپنے عقائد کی رو سے دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر اور صرف اپنی جماعت کے لوگوں کو مسلمان سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی جماعت کی خدمات پر ’’فرزند احمدیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
10 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی: ’’آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطع تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔‘‘
فروری 1987ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکی سینٹ کے ارکان کو ایک چٹھی لکھی کہ ’’آپ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اقتصادی امداد مشروط طور پر دیں تاکہ ہمارے خلاف کیے گئے اقدامات حکومت پاکستان واپس لے لے۔‘‘

30 اپریل 1984ء کو قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی آرڈیننس مجریہ 1984ء کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے بھاگ کر لندن چلے گئے۔ رات کو لندن میں انھوں نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’بیت الفضل‘‘ سے ملحقہ محمود ہال میں غصہ سے بھرپور جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالسلام مرزا طاہر کے سامنے صف اوّل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا طاہر احمد نے اپنے خطاب میں صدارتی آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984ء (جس کی رو سے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ احمدیوں کی بددعا سے عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مزید برآں انھوں نے امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام اقتصادی امداد بند کر دیں۔ اپنے خطاب کے آخر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ آپ سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔‘‘ ’’فرزند احمدیت‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام نے اسے اپنی سعادت سمجھا اور ملاقات کے لیے حاضر ہو گئے۔

اس ملاقات میں مرزا طاہر احمد نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ہدایت کی کہ وہ صدر ضیاء الحق سے ملاقات کریں اور انھیں آرڈیننس واپس لینے کے لیے کہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر عبدالسلام نے جنرل محمد ضیاء الحق سے پریذیڈنٹ ہائوس میں ملاقات کی اور انھیں جماعت احمدیہ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیاء الحق نے بڑے تحمل اور توجہ سے انھیں سنا۔ جواب میں صدر ضیاء الحق اٹھے اور الماری سے قادیانی قرآن ’’تذکرہ‘‘ مجموعہ وحی مقدس و الہامات اٹھا لائے اور کہا کہ یہ آپ کا قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی آیات میں تحریف کی ہے اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
اس صفحہ پر مندرجہ ذیل آیت درج تھی:

انا انزلنا قریبا من القادیان ترجمہ: ’’(اے مرزا قادیانی) یقینا ہم نے قرآن کو قادیان (گورداسپور بھارت) کے قریب نازل کیا۔‘‘ (نعوذ باللہ) (تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات طبع چہارم ص 59 از مرزا قادیانی)
اور مزید لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ضیاء الحق نے کہا کہ یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ بے حد شرمندہ ہوئے اور کھسیانے ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔

یہ بات اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کے معروف یہودی سائنس دان یوول نیمان کے ڈاکٹر عبدالسلام سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ یہ وہی یوول نیمان ہیں جن کی سفارش پر تل ابیب کے میئر نے وہاں کے نیشنل میوزیم میں ڈاکٹر عبدالسلام کا مجسمہ یادگار کے طور پر رکھا۔ معتبر ذرائع کے مطابق بھارت نے اپنے ایٹمی دھماکے اسی یہودی سائنس دان کے مشورے سے کیے جو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یوول نیمان امریکہ میں بیٹھ کر براہ راست اسرائیل کی مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔

اسرائیل کے لیے پہلا اٹیم بم بنانے کا اعزاز بھی اسی شخص کو حاصل ہے۔ پاکستان اس کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارت کے کئی خفیہ دورے بھی کر چکا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکی کانگریس کی بہت بڑی لابی اس وقت یوول نیمان کے لیے نوبیل پرائز کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد امت مسلمہ کو نقصان پہنچانا ہے اور وہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے ہر وقت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی سازش میں مصروف رہتا ہے۔ دنیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تل ابیب یونیورسٹی اسرائیل کے شعبہ فزکس کا سربراہ بھی ہے۔ اس سے پہلے یہ شخص اسرائیل کا وزیر تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی بھی رہا۔ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر اس کی خاص نظر ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان ان کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر عبد السلام کے پاکستان دشمن بھارتی لیڈر نہرو کے ساتھ بڑے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دفعہ نہرو نے ڈاکٹر عبدالسلام کو آفر کی تھی کہ آپ انڈیا آ جائیں، ہم آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق ادارہ بنا کر دیں گے۔ اس پر ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کہ ’’وہ اس سلسلہ میں اٹلی کی حکومت سے وعدہ کر چکے ہیں لہٰذا میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے سائنس دانوں سے تعاون کروں گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بھارتی ’’خدمات‘‘ کے عوض ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ برائے بنیادی تحقیق بمبئی، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی نئی دہلی اور انڈیا اکیڈمی آف سائنس بنگلور کے منتخب رکن رہے۔ گورونانک یونیورسٹی امرتسر (بھارت)، نہرو یورنیورسٹی بنارس (بھارت)، پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ (بھارت) نے انہیں ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔ کلکتہ یونیورسٹی نے انہیں سر دیو پرشاد سردادھیکاری گولڈ میڈل اور انڈیشن فزکس ایسوسی ایشن نے شری آرڈی برلا ایوارڈ دیا۔


بھارتی صحافی جگجیت سنگھ کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام کے ذاتی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام جب بھی بھارت جاتے، جگجیت سنگھ ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ان پر بھر پور فیچر شائع کرتے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام پر "Abdulsalam a Biography" (سن اشاعت 1992ئ) کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب کا ایک باب "The Ahmaddiya Jammat" ہے جس میں جگجیت سنگھ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے والے 7ستمبر 1974ء کو پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ اور 1984ء کے صدارتی آرڈنینس جس کے تحت قادیانی شعائر اسلامی استعمال نہیں کر سکتے، کی سخت مذمت کی اور قادیانیوں کو ’’مظلوم‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف اقدامات کو حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔
ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک اور بے تکلف دوست جے سی پولنگ ہارو (J.C.Polking Horue) جو کیمبرج میں سلام کے شاگرد تھے اور بعد میں کیتھولک بشپ بن گئے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی درخواست پر ہر سال قادیانی جماعت کے سالانہ جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ یاد رہے یہ وہی پولنگ ہارو ہیں جو پاکستان میں قانون توہین رسالت 295/C کے خلاف امریکہ میں عیسائی جلوسوں کی قیادت کرتے ہیں۔ جن میں قادیانیوں کی بھی کثیر تعداد شامل ہوتی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے جولائی 1994ء میں بیت الفضل لندن میں توہین رسالت کی سزا کے خلاف تقریر کی تو مسٹر پولنگ ہارو اپنے کئی بشپ دوستوں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔

معروف صحافی جناب زاہد ملک اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیر اور اسلامی بم‘‘ کے صفحہ 23 پر ڈاکٹر عبدالسلام کی پاکستان دشمنی کے بارے میں حیرت انگیز انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’معزز قارئین کو اس انتہائی افسوس ناک بلکہ شرمناک حقیقت سے باخبر کرنے کے لیے کہ اعلیٰ عہدوں پر متمکن بعض پاکستانی کس طرح غیر ممالک کے اشارے پر کہوٹہ بلکہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں، میں صرف ایک اور واقعہ کا ذکر کروں گا اور اس واقعہ کے علاوہ مزید ایسے واقعات کا ذکر نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ ایسا کرنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں لیکن میں نے ان سنسنی خیز واقعات کو تاریخ وار درج کر کے اس انتہائی اہم قومی دستاویز کی دو نقلیں پاکستان کے باہر دو مختلف شخصیات کے پاس بطور امانت درج کرا دی ہیں اور اس کی اشاعت کب اور کیسے ہو، کے متعلق بھی ضروری ہدایات دے دی ہیں۔ ‘‘
یہ واقعہ نیاز اے نائیک سیکرٹری وزارت خارجہ نے مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذاتی دوست سمجھتے ہوئے سنایا تھا۔ انہوں نے بتلایا کہ وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے انہیں یہ واقعہ ان الفاظ میں سنایا:

’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کر رہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس حوالے سے اپنی پیش رفت فوراً بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین تنائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ جب ان کی گرم سرد باتیں اور دھمکیاں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلاس میں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو نہیں جھٹلا سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی موجود ہے۔ یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے انداز میں کہا کہ آئیے میرے ساتھ بازو والے کمرے میں۔ میں آپ کو بتائوں آپ کا اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر، ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے کر جا رہا ہے اور وہاں جا کر یہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک سٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سی چیز رکھی ہوئی تھی۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا تم اب بھی اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا میں فنی اور تکینکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے یا پہچان کرنے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولہ کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن اگر آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہو گا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے کے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب ہم کا ریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہے تھے، جس میں بقول سی آئی اے کے، اس کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، اچھا! تو یہ بات ہے‘‘۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے صاحبان اقتدار نے دانستہ طور پر ڈاکٹر عبدالسلام کی مندرجہ بالا غداریوں او رسازشوں سے مجرمانہ چشم پوشی کی اور ان ’’خدمات‘‘ کے عوض انہیں 1959ء میں ستارہ امتیاز اور تمغہ و ایوارڈ حسن کارکردگی اور 1979ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا گیا۔
آخر میں ایک اہم بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وفاقی وزارتِ تعلیم اسلامی جمہوریہ پاکستان (شعبہ نصاب) کی چٹھی نمبری F-2-4/2004-AEA (B.S) مورخہ 19 اپریل 2003ء کے مطابق تمام صوبوں، ریاست آزاد کشمیر اور فیڈرل بورڈ کی نویں جماعت کی (طبیعات) فزکس کی کتاب کے باب اوّل میں ’’سائنس کی ترقی میں عالم اسلام اور پاکستانی سائنسدانوں کا حصہ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون دیا گیا ہے۔ جس میں زمانہ قدیم کے اہل علم و فن ابن الہیثم، البیرونی اور الکندی کے ساتھ ساتھ زمانہ حال کے دو پاکستانی سائنسدانوں، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور نوبل انعام یافتہ قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ (بلوچستان کی دونوں کتابوں میں صرف قادیانی سائنس دان کا ذکر ہے محسن پاکستان کا نہیں ہے)
سائنسدانوں کے مختصر احوال اور کارناموں کے تذکرے سے قبل تعارفی پیرا گراف میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس باب میں ذکر کیے جانے والے تمام سائنس دان مسلمان ہیں: پنجاب اور بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی انگلش اور اردو دونوں کتابوں سے اصل عبارات ملاحظہ فرمائیں:

"Let us see what are the achievements of Muslim scientists as we are concerned with Physics in this book, we shall mention those Muslim and Pakistani scientists who achieve greatness in the field of Physics." (Page 6-7)
’’ہم چونکہ اس کتاب میں فزکس کا مضمون پڑھ رہے ہیں، اس لیے ہم یہاں مسلمان اور پاکستانی سائنس دانوں کی فزکس کے حوالے سے سائنس کی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کے بارے میں پڑھیں گے۔‘‘
اسی طرح قومی نصاب کے مطابق جنرل سائنس (نویں) میں بھی ڈاکٹر عبدالسلام کا تذکرہ بطور مسلمان سائنس دان موجود ہے۔
مآخذ

شمشاد نیرنگ خیال عاطف بٹ
ڈاکٹر عبدالسلام نے 1974 میں پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ کہوٹہ لیباٹریز میں ایٹمی پراجیکٹ کا کام 1976 میں شروع ہوا تھا۔
:lol:
 
Top