اقتباسات مختلف کتابوں سے اقتباسات

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
" میرے سامنے قوموں کی داستانیں نہ کہو۔ مجھے اصول اور قانون کی باتیں نہ سکھاؤ۔ میرے سامنے حکومت کا تذکرہ نہ کرو کہ میراوطن سارا جہاں ہے۔ آؤ اس انسانیت کی بات کریں جو انسان کو جنم دے کر بانجھ ہو گئی ہے۔ جو دور پھٹے چیتھڑوں میں ملبوس اپنے بچوں کو پکار رہی ہے، بچے جو انسان سے زیادہ قوم بن گئے ہیں۔"

( خلیل جبران کی کتاب "شہ پارے" سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
اگر دل تشکر کی طرف نہیں آتا ، دماغ ہنر کی طرف نہیں جاتا اور زبان حق کی طرف مائل نہیں ہوتی تو انسان انسان نہیں رہتا بلکہ دشت و صحرا میں بدل جاتا ہے ۔
‏(آوازِ دوست)
‏۔مختار مسعود

‏⁧
 

سیما علی

لائبریرین
میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے. ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا ؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے ؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے. کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں. کھانے لگتے تو دروازہ بجتا:
‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے. میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا ؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے ؟ پھر ؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے. ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے. عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے. بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتاز مفتی۔ ۔ ۔تلاش سے اقتباس۔ ۔ ۔


اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ
 

سیما علی

لائبریرین
میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے. ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا ؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے ؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے. کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں. کھانے لگتے تو دروازہ بجتا:

‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے. میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا ؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے ؟ پھر ؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے. ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے. عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے. بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتاز مفتی۔ ۔ ۔تلاش سے اقتباس۔ ۔ ۔


اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ
 

صابرہ امین

لائبریرین
میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے. ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا ؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے ؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے. کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں. کھانے لگتے تو دروازہ بجتا:
‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے. میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا ؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے ؟ پھر ؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے. ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے. عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے. بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتاز مفتی۔ ۔ ۔تلاش سے اقتباس۔ ۔ ۔


اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ
یا حیرت ، یہی باتیں میں بھی اکثر سوچتی ہوں!
شاید اس لیے کہ خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
یا حیرت ، یہی باتیں میں بھی اکثر سوچتی ہوں!
شاید اس لیے کہ خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہوتا ہے۔
سچ ممتاز مفتی صاحب کا ایک ایک لفظ ایسا ہے کہ ہمارے دل کی بات ہے ۔۔۔
لبیک پڑھیں تو ایسا لگتا ہے گویا ہر وہ بات کہہ رہے ہیں جو ہم سوچ رہے ہیں ۔۔گویا وہ ہر حساس انسان کا دل پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
سچ ممتاز مفتی صاحب کا ایک ایک لفظ ایسا ہے کہ ہمارے دل کی بات ہے ۔۔۔
لبیک پڑھیں تو ایسا لگتا ہے گویا ہر وہ بات کہہ رہے ہیں جو ہم سوچ رہے ہیں ۔۔گویا وہ ہر حساس انسان کا دل پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔
ویسے لبیک پڑھ کر کافی گھبراہٹ ہوئی کہ یہ سب سوچنا اور پڑھنا گناہ تو نہیں؟ :question:
 

سیما علی

لائبریرین

"ماحول کے تاثرات مختلف ہیں۔

یوں سمجھ لیجئے کہ مکہ معظمہ قانون ہی قانون ہے اور مدینہ منورہ رحمت ہی رحمت ہے" ۔ ۔ ۔ قدرت اللہ شہاب نے وضاحت کی۔
میں پھر بھی نہ سمجھا۔ اس پر قدرت اللہ شہاب نے مجھے یہ واقعہ سنایا:
"مکہ معظمہ میں بچوں کو حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
لیکن مسجد نبوی صل اللہ علیہ و سلم میں بچے کھیلیں یا شور مجائیں تو انہیں کوئی نہیں روکتا ۔۔۔
پاکستان کا ایک فوجی افسر عمرہ کرنے کیلئے ایک مہینے کی چھٹی پر یہاں آیا تھا۔ مسجد نبوی صل اللہ علیہ و سلم میں اس نے دیکھا کہ بچے شور مچا رہے ہیں۔ اسے بے حد غصہ آیا، کہنے لگا، "یہ سراسر بے ادبی ہے"۔ اس نے بچوں کو ڈانٹا۔ اس پر اس کے ساتھی نے جو مدینہ منورہ کی ڈسپنسری کا ڈاکٹر تھا۔ اس کو منع کیا کہ بچوں کو نہ دانٹے۔
افسر نظم و نسق کا متوالہ تھا۔ اس نے ڈاکٹر کی سنی ان سنی کردی۔ رات کو اس موضوع پر دونوں میں بحث چھڑ گئی۔ ڈاکٹر نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم یہ پسند نہیں کرتے کہ بچوں کو ڈانٹا جائے"۔

"اسی رات افسر نے خواب دیکھا۔ حضور اعلیٰ صلی اللہ علیہ و سلم خود تشریف لائے، خشمگیں لہجے مین فرمایا، "اگر آپ مسجد میں بچوں کی موجودگی پسند نہیں کرتے تو مدینہ سے چلے جائیے""۔

اگلے روز پاکستان کے فوجی ہیڈ کوارٹرز سے ایک تار موصول ہوا جس مین اس افسر کی چھٹی منسوخ کر دی گئی تھی اور اسے فورا” ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

"آپ کو اس واقعہ کا کیسے پتہ چلا"؟ میں نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا۔
"مجھے ڈسپنسری کے ڈاکٹر نے بتایا جس کے پاس وہ افسر ٹھہرا ہوا تھا"۔
"لبیک" سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
یوں سمجھ لیجئے کہ مکہ معظمہ قانون ہی قانون ہے اور مدینہ منورہ رحمت ہی رحمت ہے" ۔ ۔
صابرہ بٹیا کیا یہ ہمارے احساسات نہیں ہیں ۔۔۔مسجد قبا سے ہی یہ احساس حاوی ہوتا ہے اور مسجد نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ رحمت کی بارش میں پور پور بھیگ گیا ہے ۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سچ ممتاز مفتی صاحب کا ایک ایک لفظ ایسا ہے کہ ہمارے دل کی بات ہے ۔۔۔
لبیک پڑھیں تو ایسا لگتا ہے گویا ہر وہ بات کہہ رہے ہیں جو ہم سوچ رہے ہیں ۔۔گویا وہ ہر حساس انسان کا دل پڑھ رہے ہیں ۔۔۔۔
ویسے لبیک پڑھ کر کافی گھبراہٹ ہوئی کہ یہ سب سوچنا اور پڑھنا گناہ تو نہیں؟ :question:

سیما علی آپا ، بہت برسوں پہلے ایک دفعہ گھر والوں سے مل کر پاکستان سے واپس آرہا تھا تو میرے بڑے بھائی نےمجھے لبیک کی ایک کاپی دی اور کہا کہ اسے دورانِ سفر پڑھنا ۔ بھائی جان کچھ تصوف کی طرف مائل ہیں اور اس طرح کی کتب پڑھتے ہیں ۔لیکن میں اس کتاب کو چند صفحات سے زیادہ نہیں پڑھ سکا اور گھر آکر پہلی فرصت میں اسے ضائع کردیا۔ معذرت ، میری رائے میں یہ انتہائی بیکار اور گمراہ کن کتاب ہے۔ مذہب میرے نزدیک ایک مقدس اور آسمانی شے کا نام ہے ۔ میں اس میں انسانی" فضولیات" اور خیال آرائی کا دخل مناسب نہیں سمجھتا ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا اور ان کی سنت ہمارے مذہب کا محور ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بلکہ کچھ سوچتے ہوئے بھی انسان پر کپکپاہٹ طاری ہوجاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خیال آرائی کی جرات تو آپ کے صحابہ کو نہیں ہوتی تھی ۔ ذرا آواز بلند ہوئی اور عمر بھر کے اعمال ضائع۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نعوذ باللہ کسی عام سے صوفی اور درویش کی طرح اپنی تحریر کا حصہ بنانا اور اس میں بے سروپا باتیں لکھنا بہت جرات کی بات ہے ۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ : با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار! یعنی جب اپنے خدا سے محبت کی بات آئے تو بیشک اس کی محبت میں دیوانے بن جاؤ کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور بہت در گزر کرنے والا ، معاف کرنے والا ہے ۔ لیکن جہاں بات اس کے رسول کی ہو تو خبردار جو ادب و احترام کا دامن بھی ذرا چھوٹے۔ ذرا آواز بھی بلند ہوئی تو عمر بھر کی کمائی جاتی رہے گی۔ وجہ یہ کہ آپ کی ذات اور آپ کی سنت ہی مذہب کابنیادی نقش ہے ۔ اس نقش کو بہت صاف ستھرا اور ہر قسم کے ابہام و گرد و غابر سے پاک رکھنا ضروری ہے ۔ دل میں کچھ خیالات کا آنا اور بات ہے اور انہیں زبان پر لانا یا سپردِ قلم کرنا اور بات۔
سیما آپا ، ہمارے مذہب میں نہ تو خوابوں اور "الہامی سوچوں" کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کی باتیں گھڑنی چاہئیں ۔ اکثر ایسے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ ممتاز مفتی صاحب نے بہت ساری باتیں جو اس کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی ہیں وہ درست بھی نہیں ہیں۔ مثلاً اوپر دو کھجوروں والا واقعہ جو ایک اقتباس میں موجود ہے۔ ایسی مشتبہ باتوں سے اجتناب بہت ضروری ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
میں دخل در معقولات کے لیے آپ دونوں محترم خواتین سے معذرت چاہتا ہوں ۔ لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ صابرہ امین کے اٹھائے گئے سوال پر بات کی جائے اور اس معاملے کا یہ پہلو بھی یہاں پیش کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر گراں گزرے تو میں معافی کا خواستگار ہوں ۔
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن جہاں بات اس کے رسول کی ہو تو خبردار جو ادب و احترام کا دامن بھی ذرا چھوٹے۔ ذرا آواز بھی بلند ہوئی تو عمر بھر کی کمائی جاتی رہے گی۔ وجہ یہ کہ آپ کی ذات اور آپ کی سنت ہی مذہب کابنیادی نقش ہے ۔ اس نقش کو بہت صاف ستھرا اور ہر قسم کے ابہام و گرد و غابر سے پاک رکھنا ضروری ہے ۔ دل میں کچھ خیالات کا آنا اور بات ہے اور انہیں زبان پر لانا یا سپردِ قلم کرنا اور بات۔
سیما آپا ، ہمارے مذہب میں نہ تو خوابوں اور "الہامی سوچوں" کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کی باتیں گھڑنی چاہئیں ۔
بالکل درست فرمایا آپ نے بیشک کچھ باتیں جو دل میں آتیں ہیں انکا زبان پر لانا اور سپرد قلم کرنا الگ بات ہے ۔۔۔کجا کہ باتیں گھڑنا ۔۔۔ہم کہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی بھی خاک پا کہ برابر نہیں ۔۔ہم تو ہر دم یہ دعا کرتے ہیں پروردگار ہمیں ایمان کے جس کمزور ترین درجہ پر ہیں ۔۔پاک پروردگار ہم سب کے لئیے آسانیاں فرمائے آمین
 

صابرہ امین

لائبریرین
سیما علی آپا ، بہت برسوں پہلے ایک دفعہ گھر والوں سے مل کر پاکستان سے واپس آرہا تھا تو میرے بڑے بھائی نےمجھے لبیک کی ایک کاپی دی اور کہا کہ اسے دورانِ سفر پڑھنا ۔ بھائی جان کچھ تصوف کی طرف مائل ہیں اور اس طرح کی کتب پڑھتے ہیں ۔لیکن میں اس کتاب کو چند صفحات سے زیادہ نہیں پڑھ سکا اور گھر آکر پہلی فرصت میں اسے ضائع کردیا۔ معذرت ، میری رائے میں یہ انتہائی بیکار اور گمراہ کن کتاب ہے۔ مذہب میرے نزدیک ایک مقدس اور آسمانی شے کا نام ہے ۔ میں اس میں انسانی" فضولیات" اور خیال آرائی کا دخل مناسب نہیں سمجھتا ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا اور ان کی سنت ہمارے مذہب کا محور ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بلکہ کچھ سوچتے ہوئے بھی انسان پر کپکپاہٹ طاری ہوجاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خیال آرائی کی جرات تو آپ کے صحابہ کو نہیں ہوتی تھی ۔ ذرا آواز بلند ہوئی اور عمر بھر کے اعمال ضائع۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نعوذ باللہ کسی عام سے صوفی اور درویش کی طرح اپنی تحریر کا حصہ بنانا اور اس میں بے سروپا باتیں لکھنا بہت جرات کی بات ہے ۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ : با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار! یعنی جب اپنے خدا سے محبت کی بات آئے تو بیشک اس کی محبت میں دیوانے بن جاؤ کہ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور بہت در گزر کرنے والا ، معاف کرنے والا ہے ۔ لیکن جہاں بات اس کے رسول کی ہو تو خبردار جو ادب و احترام کا دامن بھی ذرا چھوٹے۔ ذرا آواز بھی بلند ہوئی تو عمر بھر کی کمائی جاتی رہے گی۔ وجہ یہ کہ آپ کی ذات اور آپ کی سنت ہی مذہب کابنیادی نقش ہے ۔ اس نقش کو بہت صاف ستھرا اور ہر قسم کے ابہام و گرد و غابر سے پاک رکھنا ضروری ہے ۔ دل میں کچھ خیالات کا آنا اور بات ہے اور انہیں زبان پر لانا یا سپردِ قلم کرنا اور بات۔
سیما آپا ، ہمارے مذہب میں نہ تو خوابوں اور "الہامی سوچوں" کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس قسم کی باتیں گھڑنی چاہئیں ۔ اکثر ایسے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ ممتاز مفتی صاحب نے بہت ساری باتیں جو اس کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی ہیں وہ درست بھی نہیں ہیں۔ مثلاً اوپر دو کھجوروں والا واقعہ جو ایک اقتباس میں موجود ہے۔ ایسی مشتبہ باتوں سے اجتناب بہت ضروری ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
میں دخل در معقولات کے لیے آپ دونوں محترم خواتین سے معذرت چاہتا ہوں ۔ لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ صابرہ امین کے اٹھائے گئے سوال پر بات کی جائے اور اس معاملے کا یہ پہلو بھی یہاں پیش کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر گراں گزرے تو میں معافی کا خواستگار ہوں ۔
ممتاز مفتی کی تقریبا تمام کتابیں میرے پاس تھیں ۔میں نے ممتاز مفتی کی کافی کتابیں پڑھی ہیں مگر چند ایک بالکل نہ پڑھ سکی۔شروع کرنے کے بعد دل آمادہ نہ ہوا۔ لبیک کسی کے کہنے پر پڑھی مگر دل بےچین رہا، مطمئن نہیں ہوا۔۔ آپ کی باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔ مذہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے غیر سنجیدہ رویہ افسوسناک ہے۔اتنے سہل انداز میں سمجھانے کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ جزاک اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
بالکل درست فرمایا آپ نے بیشک کچھ باتیں جو دل میں آتیں ہیں انکا زبان پر لانا اور سپرد قلم کرنا الگ بات ہے ۔۔۔کجا کہ باتیں گھڑنا ۔۔۔ہم کہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی بھی خاک پا کہ برابر نہیں ۔۔ہم تو ہر دم یہ دعا کرتے ہیں پروردگار ہمیں ایمان کے جس کمزور ترین درجہ پر ہیں ۔۔پاک پروردگار ہم سب کے لئیے آسانیاں فرمائے آمین
آمین ثم آمین۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خیال آرائی کی جرات تو آپ کے صحابہ کو نہیں ہوتی تھی ۔ ذرا آواز بلند ہوئی اور عمر بھر کے اعمال ضائع۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نعوذ باللہ کسی عام سے صوفی اور درویش کی طرح اپنی تحریر کا حصہ بنانا اور اس میں بے سروپا باتیں لکھنا بہت جرات کی بات ہے ۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا نا کہ : با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار!
مالک کائینات کے حضور دعا ہے کہ ہمارے ادنیٰ اعمال کو ضائع ہونے سے بچا لے ۔آمین ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہی ہمارا مقصد حیات ہے اسلام کی بنیاد ہی عشق رسول ﷺ ہے اور خوشنوئ خدا بھی اسی پر موقوف ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یا حیرت ، یہی باتیں میں بھی اکثر سوچتی ہوں!
شاید اس لیے کہ خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہوتا ہے۔
مختصراً کہیں تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے ضرورتمندوں پر خرچ کرنے کو ترجیح دی ۔ یعنی اخروی زندگی کی کامیابی کو اس دنیا کی زندگی پر مقدم رکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمارے لیے مثال بنا کر بھیجا اور بار بار قرآن میں حکم دیا کہ ان کی اطاعت کرو ، جیسا وہ کرتے ہیں ویسا ہی کرو ۔ اپنی خواہشات اور سوچ کی پیروی نہ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنا اور تونگری کیوں اختیار کی اس کی واضح وجوہات آپ کی سیرت میں نظر آتی ہیں ، آپ نے اپنی احادیث میں بیان کی ہیں ۔ قرآن بار بار اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یعنی انفاق کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ جہاں کہیں ایمان لانے اور نماز پڑھنے کا حکم آتا ہے اس کے فوراً بعد انفاق کا حکم بھی اکثر و بیشتر موجود ہوتا ہے ۔ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے دوسروں پر خرچ کرنے کو ترجیح دی ۔سیرت کی کتب ان واقعات سے بھری پڑی ہیں ۔ صرف ایک قولِ رسول نقل کرتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے پاس اس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر مجھ پر تین دن گزر جائیں اور میرے پاس اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم احد برابر سونے کو تین دن کے اندر اندر لوگوں میں بانٹنا چاہتے تھے۔ سو لب لباب یہ کہ آپ صلی اللہ علویہ وسلم نے آخرت کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دی اور ایک عملی مثال ہم سب کے سامنے پیش کرگئے۔
وہ ایک شخص دو عا لم کی سروری والا
مزاج دے گیا شاہی کو سادگی والا

بیشک ہم جود و سخا کےاس مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے لیکن اگر ہم میانہ روی بھی اختیار کرلیں تو ہمارے بہت سارے معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اللہ کریم ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
میں دخل در معقولات کے لیے آپ دونوں محترم خواتین سے معذرت چاہتا ہوں ۔ لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ @صابرہ امین کے اٹھائے گئے سوال پر بات کی جائے اور اس معاملے کا یہ پہلو بھی یہاں پیش کردیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر گراں گزرے تو میں معافی کا خواستگار ہوں
آپ کی باتیں راست ۔ اتنے خوبصورت انداز میں سمجھائی گئی باتیں بھلا گراں کیونکر گذریں ۔۔سلامت رہیں ۔عمر خضر پائیں آمین ۔۔/
 

سیما علی

لائبریرین
دنیاوی زندگی پر ترجیح دی اور ایک عملی مثال ہم سب کے سامنے پیش کرگئے۔
وہ ایک شخص دو عا لم کی سروری والا
مزاج دے گیا شاہی کو سادگی والا

بیشک ہم جود و سخا کےاس مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے لیکن اگر ہم میانہ روی بھی اختیار کرلیں تو ہمارے بہت سارے معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اللہ کریم ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
بیشک بیشک ۔۔۔۔
مجھے بس عشقِ محمد ﷺ میں فنا کر دے۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
بیشک ہم جود و سخا کےاس مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے لیکن اگر ہم میانہ روی بھی اختیار کرلیں تو ہمارے بہت سارے معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اللہ کریم ہمیں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
اے کاش ہم غلاموں کی بھی پیروں کی خاک پر فائز ہوجائیں ۔۔۔آمین
ظہیر بھائی ! لیکن ہمیں اپنے سخت رویوں پر اعرابی والا واقعہ ضرور یاد آتا ہے ۔۔۔کاش ہم جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی بات کرتے ہوئے اعلیٰ ترین بات یاد کریں۔۔
جب مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس بدو کو برا بھلا کہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خاموش کروایا ۔۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس اعرابی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں فرمایا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے مسجد میں الله کا ذکر کیا جاتاہے اور نماز ادا کی جاتی ہے، اس اعرابی پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کہتے ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔(
(سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر529)
آپ ہماری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ ہمارے علما ئے کرام میں نخوت و سختی اس حد تک در آئی ہے کہ لوگ انکی بات سننا پسند نہیں کرتے ۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ ہماری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ ہمارے علما ئے کرام میں نخوت و سختی اس حد تک در آئی ہے کہ لوگ انکی بات سننا پسند نہیں کرتے ۔۔۔
علماء ؟! کون سے علماء؟ آپا مجھے توعوامی منظر نامے پر دور دور تک باعمل علما ء نظر نہیں آتے۔ جو باعمل اور باکردار ہیں تو وہ شہرت اور سیاست سے بہت دور رہ کر چپ چاپ دین کی خدمت کررہے ہیں ۔ہماری قسمت میں تو کج علم اور کج فہم مولوی رہ گئے ہیں جن کا کردار بہت کم ہی مثالی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ لوگ دین کی روح اور غرض و غایت کو بھلا کر ظاہری رسومات پر زیادہ فوکس ہوگئے ہیں سو ان کے معاملات میں شدت پسندی اور کرختگی در آئی ہے ۔ ویسے بحیثیت قوم ہم لوگ اخلاقیات سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپا مجھے توعوامی منظر نامے پر دور دور تک باعمل علما ء نظر نہیں آتے۔ جو باعمل اور باکردار ہیں تو وہ شہرت اور سیاست سے بہت دور رہ کر چپ چاپ دین کی خدمت کررہے ہیں ۔
بھائی سچ کہا آپ نے یہ نام نہاد علماء ہیں یہ حضرات عمل سے کوسوں دور ہیں ۔۔۔ جو باعمل ہیں وہ بلا تشہیر دین کی خدمت کرتے ہیں ۔۔۔
 
Top