احباِبِ کرام ! میں نے فرمائشی کلام کم لکھا ہے اور جو لکھا ہے وہ عموماً محفوظ نہیں کیا ۔ لکھ کر دے دیا ۔یہ ایک نظم ہے جو برسوں پہلے اپنی ایک بھتیجی کی شادی کے موقع پر میں نے اپنی والدہ محترمہ (مرحومہ) کی خواہش پر لکھی تھی ۔ یہ نظم اپنے بھائی صاحب کی طرف سے لکھی ہے یعنی یہ ایک خطابیہ ہے بیٹی کی...
ایک اور پرانی غزل احبابِ محفل کی خدمت میں ! اب کچھ زیادہ کلام نہیں بچا ۔ چند غزلیں اور دو ایک نظمیں اور باقی ہیں جو باری باری آپ کے ذوق کی نذر کرنے کا شرف حاصل کروں گا۔
غزل
کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے
انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے
فصیلیں ساری گرادیں جو درمیان...
احبابِ کرام ! ایک اور پرانی غزل آپ کے ذوقِ سخن کی نذر ہے۔ شاید ایک آدھ مصرع آپ کے ذوقِ لطیف کو سیراب کردے ۔
غزل
ویسے میں ہر حلیف سے محروم تو ہوا
کس کس کی زد پہ ہوں مجھے معلوم تو ہوا
کھوئے ہوئے کھلونے کی انتھک تلاش میں
دنیا سے آشنا کوئی معصوم تو ہوا
بکھرا ہوا تھا میرا فسانہ مری طرح
اشعار...
ایک پرانی غزل احبابِ کرام کی خدمت میں !
کارِ وفا محال تھا ، ناکام رہ گیا
قصّہ مرا بھی تشنہء انجام رہ گیا
شب کوبھی میں چھڑا نہ سکا رہن ِدرد سے
دن بھی اسیر ِگردشِ ایّام رہ گیا
ظلمات ِپُرفریب میں اُلجھی رہی نظر
محروم ِ دید ماہ ِ سر ِ بام رہ گیا
تکتا ہوں چھوٹ کر بھی کمیں گاہِ دہر کو
دل...
ایک غزل آپ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش کرتا ہوں - شاید آپ کو کچھ اشعار پسند آجائیں ۔
اپنی متاعِ خواب مرے نام کرگیا
اک شخص شہر ِ ہجر میں گمنام مرگیا
ترکِ جنون کرکے بیاباں سے گھر گیا
بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا
اِس رقص ِگردبادِ غم ِ روزگار میں
ہر جامہء لحاظ بدن سے اتر گیا
سورج کو...
ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آج مختلف کاغذوں سے صفحہء ویب پر منتقل کررہا ہوں ۔ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ گر قبول افتد ۔۔۔
غزل
چراغِ شام جلا ہے کہ د ل جلا کوئی
حصارِ ضبطِ فغاں سے نکل چلا کوئی
نہ کوئے یار میں آوارہ کوئی دیوانہ
نہ بزمِ یار میں باقی ہے منچلا کوئی
بدل گیا ہے سراسر مزاجِ...
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔
ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا!
وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا
عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا
مکمل ہوا دائرہ زندگی کا
یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر
جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا
ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے
سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی...
احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔
مرہموں کی آس میں
٭٭٭
زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں
کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں
چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں
تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں
دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط
رہ گئی...
نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے
مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے
بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے
ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر
جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے
مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے
یہ کار...
میں اس فاختہ بہت دنوں سے جانتا تها.ایک ٹانگ کٹی ہوئ، کبهی خوش تو کبهی تهوڑی مایوس ، نا کسی سے جهگڑا نا کسی اپنے سے لڑائ ، باقی پرندوں سے الگ تهلگ ، اکثر خاموش تو کبهی کبهی باتیں کرتے کرتے تهکتی بهی نہیں تهی ، اسے دیکه کر میں سوچنے لگتا کہ یہ تنہائ میں کس سے باتیں کرتی ہے ، شاید کسی اپنے کو...
دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہوگئی
دل تھما تو گردشِ حالات گہری ہو گئی
کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں
اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ذات گہری ہو گئی
زندگی نے ہونٹ کھولے لفظ سادہ سے کہے
تجربے نے آنکھ کھولی بات گہری ہو گئی
چاندنی کی آس میں ہم دیر تک بیٹھے رہے
ڈھونڈنے نکلے دیا جب رات...
اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں
جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں
اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین
تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں
اک یاد ِ مشکبو تری زلفِ سیاہ کی
چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں
دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب
جوفِ شکم میں تیغ ِ مصقّل سے کم نہیں
حاصل...
ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے آپ کی نذر۔ اس کا سارا عذاب ثواب محمد تابش صدیقی کے ذمے ہے ۔
سجا کے شبنمی آنسو گلاب چہرے پر
کہانی لکھ گیا کوئی کتاب چہرے پر
نظر سے اٹھتا ہے برباد جنتوں کا دھواں
سلگ رہے ہیں ہزاروں عذاب چہرے پر
نگاہیں ساتھ نہیں دیتیں شوخیٔ لب کا
جھلک رہی ہے حقیقت سراب...
احبابِ کرام ! ایک بارہ سال پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ شاید کوئی شعر آپ کو پسند آئے ۔
نظم ِ نو آ گیا ، انصاف نرالا دیگا
بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دیگا
فرق مٹ تو گئے مابین ِ سفید و سیہ اب
اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دیگا
جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی
اب وہی میرے تشخص کو حوالہ...
زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے
ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے
جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا
ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہوگئے
نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں
ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہوگئے
کچھ ایسا رائگانیٔ دستک کا خوف تھا
پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہوگئے
میرے ستم گروں کا...
دیارِ شوق کے سب منظروں سے اونچا ہے
یہ سنگِ در ترا سار ےگھروں سے اونچا ہے
مقامِ عجز کو بخشی گئی ہے رفعتِ خاص
جو سر خمیدہ ہے وہ ہمسروں سے اونچا ہے
فرازِ طور کی خواہش نہ کر ابھی اے عشق!
یہ آسمان ابھی تیرے پروں سے اونچا ہے
خدا مدد! کہ یہ شیطانِ نفسِ امّارہ
مرے اُچھالے ہوئے کنکروں سے اونچا...
احبابِ کرام ! ایک پرانی غزل ڈھونڈ نکالی ہے ۔ شاید کوئی کام کا شعر ہو ۔ آپ کے ذوقِ لطیف کی نذر کرتا ہوں ۔( اشعارِ قدیمہ کی مزید کھدائی جاری ہے ۔ دیکھئے اور کیا کیا برآمد ہوتا ہے ۔ویسے لگتا ہے کہ اب زیادہ کچھ نہیں رہ گیا ۔ :):):))
تلاشِ ذات
یونہی بیٹھی سوچ رہی تھی
ذات سمندر کھوج رہی تھی
سوچ کی ندیا بہتے بہتے
ان کہے دُکھ کہتے کہتے
فطرت درپن کھول رہی تھی
کانوں میں رس گھول رہی تھی
اور میں بیٹھی سوچ رہی تھی
خاکی رنگ میں، میں پوشیدہ
فطرت سبز لُبادے میں ہے
لیکن یہ سر سبز دوشیزہ
میرے رنگ کی کیوں خوگر ہے؟
کیوں کر خاک ہی اس کا...
آہاہا! گرمی کا موسم آیا
ٹھنڈی قُلفیاں اور آم ساتھ لایا
بچے خوش ہیں کہ ہوں گی اب برساتیں
لمبے دن ہوں گے چھوٹی ہوں گی راتیں
آ رہی ہیں گرمیوں کی چھٹیاں
امّی پریشاں ہیں بچے لیکن شاداں
خوب کھیلیں گے خوب مزے کریں گے
امّی ڈانٹیں گی تو تھوڑا سا پڑھیں گے
کبھی کرکٹ تو کبھی چھپن چھپائی
گھروں کی کھڑکیوں کی...
ہوش و خرد ، غرورِ تمنا گنوا کے ہم
پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم
کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر!
دامن میں تیرے آگئے تیشہ گنوا کے ہم
ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا
وہ ذات بے نیاز ہے ، بھوکے سدا کے ہم
نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ...