ظہیر احمد ظہیر

  1. ظہیراحمدظہیر

    اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ

    دو سال پرانی ایک غزل آپ احباب کے حضور پیشِ خدمت ہے ۔ اس میں چند اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر! ٭ اُجلی رِدائے عکس کو میلا کہیں گے لوگ آئینہ مت دکھائیے ، جھوٹا کہیں گے لوگ شاخیں گرا رہے ہیں مگر سوچتے نہیں پھر کس شجر کی چھاؤں کو سایہ کہیں گے...
  2. ظہیراحمدظہیر

    کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں

    ایک اور پرانی غزل احبابِ بزمِ سخن کے ذوق کی نذر! شاید ایک دو اشعار ڈھنگ کے ہوں اور آپ کو پسند آجائیں ۔ گر قبول افتد ۔۔۔۔۔ کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں طاقت ہے کس قلم میں...
  3. ظہیراحمدظہیر

    راہبر دیکھ لئے ، راہ گزر دیکھ آئے

    احباب کرام ! ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اس کے اکثر اشعار چند سال پہلے پاکستان سے واپسی کے سفر کے دوران لکھے گئے تھے۔ اگر آج کل کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ شعر اتنےپرانے محسوس نہیں ہوتے ۔ شاید آپ کو پسند آئیں ۔ راہبر دیکھ لئے ، راہ گزر دیکھ آئے بیچ رستے سے ہم انجامِ سفر دیکھ آئے...
  4. ظہیراحمدظہیر

    اپنوں نے بھی منّت کی ، غیروں نے بھی سمجھایا

    ایک اور پرانی غزل کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ آپ احباب کی بصارتوں کی نذر! اپنوں نے بھی منّت کی ، غیروں نے بھی سمجھایا کرنا تھا جو اِس دل نے کیا ، باز نہیں آیا نالہ كبهی کھینچا ہے ، تو گیت كبهی گایا نازِ شبِ ہجراں تو كسی طور نہ اُٹھ پایا دیکھا تھا کبھی جس کی گلیوں میں...
  5. ظہیراحمدظہیر

    ناخداؤں کے کھلے کیسے بھرم پانی میں

    آج پھر ایک پرانی غزل آپ احباب کے ذوقِ لطیف کی نذر کررہا ہوں ۔ ایک دور میں مشکل زمینوں میں طبع آزمائی کا شوق ہوا تھا ۔ یہ انہی دنوں کی یادگار ہے۔ شاید آپ کو کچھ اشعار پسند آئیں ۔ ناخداؤں کے کھُلے کیسے بھرم پانی میں کیا سفینے تھے کئے غرق جو کم پانی میں شہر کا شہر ہوا گریہ کناں مثلِ...
  6. ظہیراحمدظہیر

    روشنی ہی روشنی ہیں جس طرف سے دیکھئے

    احبابِ کرام ! ایک غزل آپ کی بصارتوں کی نذر اِس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی لفظ باریابِ ذوق ہوجائے ۔ روشنی ہی روشنی ہیں جس طرف سے دیکھئے جل رہے ہیں جو چراغ اُن کو شرف سے دیکھئے اِس طرح ہو جائے شاید دوست دشمن کی تمیز اپنے لشکر کو کبھی دشمن کی صف سے دیکھئے سازشوں کے سلسلے چارہ گری کے...
  7. ظہیراحمدظہیر

    رخصتی

    احباِبِ کرام ! میں نے فرمائشی کلام کم لکھا ہے اور جو لکھا ہے وہ عموماً محفوظ نہیں کیا ۔ لکھ کر دے دیا ۔یہ ایک نظم ہے جو برسوں پہلے اپنی ایک بھتیجی کی شادی کے موقع پر میں نے اپنی والدہ محترمہ (مرحومہ) کی خواہش پر لکھی تھی ۔ یہ نظم اپنے بھائی صاحب کی طرف سے لکھی ہے یعنی یہ ایک خطابیہ ہے بیٹی کی...
  8. ظہیراحمدظہیر

    کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے

    ایک اور پرانی غزل احبابِ محفل کی خدمت میں ! اب کچھ زیادہ کلام نہیں بچا ۔ چند غزلیں اور دو ایک نظمیں اور باقی ہیں جو باری باری آپ کے ذوق کی نذر کرنے کا شرف حاصل کروں گا۔ غزل کسی بھی عشق کو ہم حرزِ جاں بنا نہ سکے انا کا بوجھ تھا اتنا کہ کچھ اٹھا نہ سکے فصیلیں ساری گرادیں جو درمیان...
  9. ظہیراحمدظہیر

    کس کس کی زد پہ ہوں مجھے معلوم تو ہوا

    احبابِ کرام ! ایک اور پرانی غزل آپ کے ذوقِ سخن کی نذر ہے۔ شاید ایک آدھ مصرع آپ کے ذوقِ لطیف کو سیراب کردے ۔ غزل ویسے میں ہر حلیف سے محروم تو ہوا کس کس کی زد پہ ہوں مجھے معلوم تو ہوا کھوئے ہوئے کھلونے کی انتھک تلاش میں دنیا سے آشنا کوئی معصوم تو ہوا بکھرا ہوا تھا میرا فسانہ مری طرح اشعار...
  10. ظہیراحمدظہیر

    قصّہ مرا بھی تشنہء انجام رہ گیا

    ایک پرانی غزل احبابِ کرام کی خدمت میں ! کارِ وفا محال تھا ، ناکام رہ گیا قصّہ مرا بھی تشنہء انجام رہ گیا شب کوبھی میں چھڑا نہ سکا رہن ِدرد سے دن بھی اسیر ِگردشِ ایّام رہ گیا ظلمات ِپُرفریب میں اُلجھی رہی نظر محروم ِ دید ماہ ِ سر ِ بام رہ گیا تکتا ہوں چھوٹ کر بھی کمیں گاہِ دہر کو دل...
  11. ظہیراحمدظہیر

    اک شخص شہر ِ ہجر میں گمنام مرگیا

    ایک غزل آپ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش کرتا ہوں - شاید آپ کو کچھ اشعار پسند آجائیں ۔ اپنی متاعِ خواب مرے نام کرگیا اک شخص شہر ِ ہجر میں گمنام مرگیا ترکِ جنون کرکے بیاباں سے گھر گیا بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا اِس رقص ِگردبادِ غم ِ روزگار میں ہر جامہء لحاظ بدن سے اتر گیا سورج کو...
  12. ظہیراحمدظہیر

    چراغِ شام جلا ہے کہ د ل جلا کوئی

    ایک غزل جو پچھلے سال لکھی تھی آج مختلف کاغذوں سے صفحہء ویب پر منتقل کررہا ہوں ۔ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ گر قبول افتد ۔۔۔ غزل چراغِ شام جلا ہے کہ د ل جلا کوئی حصارِ ضبطِ فغاں سے نکل چلا کوئی نہ کوئے یار میں آوارہ کوئی دیوانہ نہ بزمِ یار میں باقی ہے منچلا کوئی بدل گیا ہے سراسر مزاجِ...
  13. ظہیراحمدظہیر

    ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا

    ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش ہے ۔ ہواؤں کی زد پہ دیا زندگی کا! وطیرہ یہ ہم نے رکھا زندگی کا عدم سے ملا ہے سرا زندگی کا مکمل ہوا دائرہ زندگی کا یہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں پھر جب آگے سے پردہ ہٹا زندگی کا ستم بھی دکھائے سبھی تیرے غم نے سلیقہ بھی مجھ کو دیا زندگی...
  14. ظہیراحمدظہیر

    مرہموں کی آس میں

    احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی نظم دستیاب ہوئی ہے ۔ آپ حضرات کے ذوق کی نذر کرتا ہوں ۔ مرہموں کی آس میں ٭٭٭ زخم ہائے جاں لئے مرہموں کی آس میں کب سے چل رہا ہوں میں دہرِ ناسپاس میں چلتے چلتے خاک تن ہوگیا ہوں خاک میں تار ایک بھی نہیں اب قبا کے چاک میں دل نشان ہوگیا ایک یاد کا فقط رہ گئی...
  15. ظہیراحمدظہیر

    نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے

    نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے یہ کار...
  16. کلیم گورمانی

    " باغبان "

    میں اس فاختہ بہت دنوں سے جانتا تها.ایک ٹانگ کٹی ہوئ، کبهی خوش تو کبهی تهوڑی مایوس ، نا کسی سے جهگڑا نا کسی اپنے سے لڑائ ، باقی پرندوں سے الگ تهلگ ، اکثر خاموش تو کبهی کبهی باتیں کرتے کرتے تهکتی بهی نہیں تهی ، اسے دیکه کر میں سوچنے لگتا کہ یہ تنہائ میں کس سے باتیں کرتی ہے ، شاید کسی اپنے کو...
  17. ظہیراحمدظہیر

    دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہوگئی

    دوستی گردش کی میرے ساتھ گہری ہوگئی دل تھما تو گردشِ حالات گہری ہو گئی کیسے اندازہ لگاتا اپنی گہرائی کا میں اپنی تہہ تک جب بھی پہنچا ذات گہری ہو گئی زندگی نے ہونٹ کھولے لفظ سادہ سے کہے تجربے نے آنکھ کھولی بات گہری ہو گئی چاندنی کی آس میں ہم دیر تک بیٹھے رہے ڈھونڈنے نکلے دیا جب رات...
  18. ظہیراحمدظہیر

    جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

    اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں اک یاد ِ مشکبو تری زلفِ سیاہ کی چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب جوفِ شکم میں تیغ ِ مصقّل سے کم نہیں حاصل...
  19. ظہیراحمدظہیر

    کہانی لکھ گیا کوئی کتاب چہرے پر

    ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے آپ کی نذر۔ اس کا سارا عذاب ثواب محمد تابش صدیقی کے ذمے ہے ۔ سجا کے شبنمی آنسو گلاب چہرے پر کہانی لکھ گیا کوئی کتاب چہرے پر نظر سے اٹھتا ہے برباد جنتوں کا دھواں سلگ رہے ہیں ہزاروں عذاب چہرے پر نگاہیں ساتھ نہیں دیتیں شوخیٔ لب کا جھلک رہی ہے حقیقت سراب...
  20. ظہیراحمدظہیر

    نظم ِ نو آ گیا ، انصاف نرالا دیگا

    احبابِ کرام ! ایک بارہ سال پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ شاید کوئی شعر آپ کو پسند آئے ۔ نظم ِ نو آ گیا ، انصاف نرالا دیگا بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دیگا فرق مٹ تو گئے مابین ِ سفید و سیہ اب اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دیگا جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی اب وہی میرے تشخص کو حوالہ...
Top