راحیلؔ فاروق

  1. فرحان محمد خان

    غزل : بنوں میں شہرۂ انصاف و عدل جب پہنچا - راحیلؔ فاروق

    غزل بنوں میں شہرۂ انصاف و عدل جب پہنچا کوئی نڈھال کسی شہر بستہ لب پہنچا کوئی خبر نہ ہوئی گردِ راہ کو صدیوں شعورِ ذات کی منزل پہ کون کب پہنچا؟ تمھارے ہجر میں بیتیں جو حالتیں مجھ پر فنا کی راہ سے مجھ تک غزل کا ڈھب پہنچا کمالِ حسن کا مدت سے تھا شعور مجھے جنونِ عشق پہ تو بے نیاز اب پہنچا رسومِ...
  2. فرحان محمد خان

    اندر کی بات بات سے آگے کی چیز ہے - راحیلؔ فاروق

    اندر کی بات بات سے آگے کی چیز ہے عشق ان کے التفات سے آگے کی چیز ہے گلزار پھول پات سے آگے کی چیز ہے دل تیری کائنات سے آگے کی چیز ہے ہر ذات ہی صفات سے آگے کی چیز ہے لیکن وہ ذات ذات سے آگے کی چیز ہے اس بار غم کی رات میں جانے ہے کیا مگر کچھ ہے جو غم کی رات سے آگے کی چیز ہے راہ فرار عشق کو سمجھے...
  3. فرحان محمد خان

    ہے تو قدغن ہی مگر اس میں برا ہی کیا ہے؟ - راحیلؔ فاروق

    ہے تو قدغن ہی مگر اس میں برا ہی کیا ہے؟ کچھ نہ کرنے کے سوا ہم نے کیا ہی کیا ہے؟ آ ، تجھے سلطنتِ دل کی ذرا سیر کراؤں تجھے معلوم نہیں ہے کہ تباہی کیا ہے؟ حال یہ ہے کہ خدا جھوٹ نہ بلوائے اگر تیری یادوں کے سوا گھر میں رہا ہی کیا ہے؟ بڑی سادہ سی محبت کا گنہگار ہوں میں یہی معلوم نہیں تھا کہ ہوا ہی...
  4. فرحان محمد خان

    عشق اگر اشک بہانے سے امر ہو جائے - راحیلؔ فاروق

    عشق اگر اشک بہانے سے امر ہو جائے روؤں، یوں روؤں کہ زم زم کو خبر ہو جائے لوحِ ایام پہ لکھ دے، کوئی اتنا لکھ دے کہ یہی دن ہیں تو ناپید سحر ہو جائے نسلِ آدم ہی سنبھل جائے کبھی، ہائے کبھی جو اُدھر ہو نہ سکا تھا وہ اِدھر ہو جائے پھر جلے پاؤں کی بلی کی طرح نکلا ہوں گھر میں لگتا نہیں یہ شام بسر ہو...
  5. فرحان محمد خان

    حد ہی نہیں ہے ورنہ حد سے گزر نہ جائیں - راحیلؔ فاروق

    حد ہی نہیں ہے ورنہ حد سے گزر نہ جائیں ہم عشق میں جئیں کیوں واللہ مر نہ جائیں اہلِ حرم ہمارے ایمان پر نہ جائیں کاغذ کے بیل بوٹے خوشبو سے ڈر نہ جائیں خلقت کی موت کے ہیں لاکھوں بہانے لیکن یہ تہمتیں بھی ظالم تیرے ہی سر نہ جائیں آنکھیں تو سیپیاں ہیں کیا آب سیپیوں کی اے دیکھنا مگر تم موتی بکھر نہ...
  6. فرحان محمد خان

    کاروبار لہو کا ہے اپنا جب ہوئے گھائل بیچ دیا -راحیلؔ فاروق

    کاروبار لہو کا ہے اپنا جب ہوئے گھائل بیچ دیا گہ گوشوں میں لگی ہے بولی گہ سرِ محفل بیچ دیا تم اپنا سرمایہ جھونکو اہلِ زمانہ اور کہیں اونے پونے داموں ہی سہی ہم نے تو دل بیچ دیا زردئِ گل سے جان ہی لے گا آج نہیں تو کل گلچیں کاٹ کے پر اور سی کے زباں صیاد نے بسمل بیچ دیا جس کی کھنک سے فقیہِ شہر...
  7. فرحان محمد خان

    تم جو کہو مناسب، تم جو بتاؤ سو ہو -راحیلؔ فاروق

    تم جو کہو مناسب، تم جو بتاؤ سو ہو اب عشق ہو گیا ہے، میری بلا سے جو ہو سنتے تھے عاشقی میں خطرہ ہے جان کا بھی نیت ملاحظہ ہو، ہم نے کہا "چلو، ہو!” نازک تھا آبگینہ پر کھیل کھیل ہی میں چوٹ ایسی پڑ گئی ہے پتھر تڑخ کے دو ہو ڈھے جائے گی کسی دن دل کی عمارت آخر کچھ گھر پہ بھی توجہ، اے گھر کے باسیو! ہو...
  8. فرحان محمد خان

    آپ سلطان ہوا کیجے گدا ہم بھی نہیں - راحیلؔ فاروق

    آپ سلطان ہوا کیجے گدا ہم بھی نہیں اس قدر تو گئے گزرے بخدا ہم بھی نہیں اب انا کو کرے سجدہ تو محبت ہی کرے جبہہ سا آپ نہیں ناصیہ سا ہم بھی نہیں جائیے جائیے مت دیکھیے مڑ کر پیچھے ایسے شوقینِ جفا خوارِ وفا ہم بھی نہیں چارۂِ سرکشئِ دل کریں اللہ اللہ وہ خدا بندہ نواز آپ تو کیا ہم بھی نہیں دوستی...
  9. فرحان محمد خان

    دل کے افسانے کو افسانہ سمجھنے والے-راحیلؔ فاروق

    دل کے افسانے کو افسانہ سمجھنے والے خوب سمجھے مجھے دیوانہ سمجھنے والے دیکھ کر بھی نہ کبھی جان سکے حسن کا راز عشق کو علم سے بیگانہ سمجھنے والے آ تجھے ضبط کے اسراف سے آگاہ کروں آہ کو درد کا پیمانہ سمجھنے والے شیخ جاگیر سمجھتا ہے خدائی کو بھی ہم خدا کو بھی کسی کا نہ سمجھنے والے قیس سے دشت میں...
  10. فرحان محمد خان

    تیرے کوچے میں جا کے بھول گئے - راحیلؔ فاروق

    تیرے کوچے میں جا کے بھول گئے خود کو ہم یاد آ کے بھول گئے زخم خنداں ہیں آج بھی میرے آپ تو مسکرا کے بھول گئے بحث گو ناصحوں نے اچھی کی مدعا سٹپٹا کے بھول گئے جو بھلائے نہ بھولتے تھے ستم سامنے ان کو پا کے بھول گئے کون تھے کیا تھے ہم کہاں کے تھے جانے کس کو بتا کے بھول گئے ہم تو خیر ان کو بھولتے...
  11. فرحان محمد خان

    غبارِ دشت سے بڑھ کر غبار تھا کوئی - راحیلؔ فاروق

    غبارِ دشت سے بڑھ کر غبار تھا کوئی گیا ہے، توسنِ غم پر سوار تھا کوئی فقیہِ شہر پھر آج ایک بت پہ چڑھ دوڑا کسی غریب کا پروردگار تھا کوئی بہت مذاق اڑاتا رہا محبت کا ستم ظریف کے بھی دل پہ بار تھا کوئی رہا لطائفِ غیبی کے دم قدم سے بسا دیارِ عشق عجب ہی دیار تھا کوئی نصیب حضرتِ انساں کا تھا وہی...
  12. فرحان محمد خان

    ساقی بھلے پھٹکنے نہ دے پاس جام کے-راحیلؔ فاروق

    ساقی بھلے پھٹکنے نہ دے پاس جام کے نیت تو باندھ سکتے ہیں پیچھے امام کے قدموں میں دیں جگہ ہمیں اہلِ کرم کہیں ہم راندگاں ہیں سجدہ‌گہِ خاص و عام کے آنکھوں کی بات چھڑ گئی باتوں کے درمیان مے‌خانے والے رہ گئے پیمانے تھام کے واعظ کو اونچ نیچ محبت کی کیا پتا یہ مسئلے نہیں علمائے کرام کے کیا خوب وحی...
Top