اندر کی بات بات سے آگے کی چیز ہے - راحیلؔ فاروق

اندر کی بات بات سے آگے کی چیز ہے
عشق ان کے التفات سے آگے کی چیز ہے

گلزار پھول پات سے آگے کی چیز ہے
دل تیری کائنات سے آگے کی چیز ہے

ہر ذات ہی صفات سے آگے کی چیز ہے
لیکن وہ ذات ذات سے آگے کی چیز ہے

اس بار غم کی رات میں جانے ہے کیا مگر
کچھ ہے جو غم کی رات سے آگے کی چیز ہے

راہ فرار عشق کو سمجھے چلا ہے کوئی
آگے غمِ حیات سے آگے کی چیز ہے

ق

مفعول فاعلات کہاں اور غزل کہاں
الہام فاعلات سے آگے کی چیز ہے

سامانِ شاعری سے نہیں شانِ شاعری
لکھنا قلم دوات سے آگے کی چیز ہے



ہم وارداتِ قلب سمجھتے تھے عشق کو
یہ فتنہ واردات سے آگے کی چیز ہے

عہدِ کہن کے پوچھیے ملا سے معجزے
جو خود عجائبات سے آگے کی چیز ہے

راحیلؔ ہارے ہی نہیں مارے بھی ہم گئے
دل کی شکست مات سے آگے کی چیز ہے
راحیلؔ فاروق
 
آخری تدوین:
Top