عشق اگر اشک بہانے سے امر ہو جائے - راحیلؔ فاروق

عشق اگر اشک بہانے سے امر ہو جائے
روؤں، یوں روؤں کہ زم زم کو خبر ہو جائے

لوحِ ایام پہ لکھ دے، کوئی اتنا لکھ دے
کہ یہی دن ہیں تو ناپید سحر ہو جائے

نسلِ آدم ہی سنبھل جائے کبھی، ہائے کبھی
جو اُدھر ہو نہ سکا تھا وہ اِدھر ہو جائے

پھر جلے پاؤں کی بلی کی طرح نکلا ہوں
گھر میں لگتا نہیں یہ شام بسر ہو جائے

میرے آوارہ کی اب تک تو نہیں ہے امید
میں گزر جاؤں تو ممکن ہے گزر ہو جائے

گرتے پڑتے چلے جاتے ہیں کسی منزل کو
جس طرح گردِ سفر محوِ سفر ہو جائے

ہے فقیہانِ محبت کا یہ فتویٰ راحیلؔ
کہ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، جدھر ہو جائے​
راحیلؔ فاروق
 
Top