لکھنؤ

  1. طارق شاہ

    مجاز مجاز لکھنوی ::::: عقل کی سطْح سے کُچھ اور اُبھر جانا تھا ::::: Majaz Lakhnavi

    غزلِ عقل کی سطْح سے کُچھ اور اُبھر جانا تھا عِشق کو منزلِ پَستی سے گُزر جانا تھا جلوے تھے حلقۂ سر دامِ نظر سے باہر میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا حُسن کا غم بھی حَسِیں، فکر حَسِیں، درد حَسِیں اس کو ہر رنگ میں، ہر طور سنْور جانا تھا حُسن نے شوق کے ہنگامے تو دیکھے تھے بہت عِشق کے...
  2. طارق شاہ

    مجاز مجاز لکھنوی ::::: حُسن پھر فِتنہ گر ہے کیا کہیے ::::: Majaz Lakhnavi

    غزلِ حُسن پھر فِتنہ گر ہے کیا کہیے دِل کی جانِب نظر ہے کیا کہیے پھر وہی رہگُزر ہے کیا کہیے زندگی راہ پر ہے کیا کہیے حُسن خود پردہ وَر ہے کیا کہیے یہ ہماری نظر ہے کیا کہیے آہ تو بے اثر تھی برسوں سے ! نغمہ بھی بے اثر ہے کیا کہیے حُسن ہے اب نہ حُسن کے جلوے اب نظر ہی نظر ہے کیا کہیے...
  3. طارق شاہ

    ملک زادہ منظور احمد ::::: شمع کی طرح شبِ غم میں پِگھلتے رہیے ::::: Malikzada Manzoor Ahmad

    غزل ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد شمع کی طرح شبِ غم میں پِگھلتے رہیے صُبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہیے وقت چلتا ہے اُڑاتا ہُوا لمحات کی گرد پیرہن فکر کا ہے، روز بدلتے رہیے آئینہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا آپ چہرے جو بدلتے ہیں، بدلتے رہیے آئی منزِل تو قدم آپ ہی رُک جائیں گے زِیست کو...
  4. کاشفی

    بیسویں صدی کے خدا سے - سید ہاشم لکھنوی

    بیسویں صدی کے خدا سے (سید ہاشم لکھنوی - 1910ء) بندے پُکارتے ہیں کہ خالق کوئی نہیں ایک اور آب و گل کا تماشہ بنا تو دے ایک شور ہے کہ بعد فنا زندگی نہیں پردے اُٹھا کے حشر کا منظر دکھا تو دے جنّت بنی ہوئی ہے خودآرائیِ خیال کوثر کی ایک موج جہاں میں بہا تو دے یوسف کا حُسن قصہء پارینہ ہوگیا دنیا تڑپ...
  5. کاشفی

    تمہاری لن ترانی کے کرشمے دیکھے بھالے ہیں - احسن مارہروی

    غزل (احسن مارہروی ) تمہاری لن ترانی کے کرشمے دیکھے بھالے ہیں چلو اب سامنے آجاؤ ہم بھی آنکھ والے ہیں نہ کیوں کر رشک دشمن سے خلش ہو خار حسرت کی یہ وہ کانٹا ہے جس سے پاؤں میں کیا دل میں چھالے ہیں یہ صدمہ جیتے جی دل سے ہمارے جا نہیں سکتا انہیں وہ بھولے بیٹھے ہیں جو ان پر مرنے والے ہیں ہماری زندگی...
  6. کاشفی

    واقعوں کو 'بھول دامن' سے ہَوا کرتے رہے - شہپر رسول

    غزل (شہپر رسول) واقعوں کو 'بھول دامن' سے ہَوا کرتے رہے داستاں بننے کی سب رسمیں ادا کرتے رہے ہم کہ جو درخواست لکھنے پر کبھی مائل نہ تھے جانے کن مجبوریوں میں التجا کرتے رہے پھول کھلتے اور بکھر کر ٹوٹتے گرتے رہے غنچے اپنے شاد رہنے کی دُعا کرتے رہے موسموں کے کچھ اشارے تھے ہمارے نام بھی ہم مگر...
Top