امان زرگر

  1. امان زرگر

    نوا جرس گل

    فعولن فعولن فعولن فعل . . نوا جرس گل بانکپن صبح نو سنا نغمہ شیریں سخن صبح نو سکھا خوئے تازہ زمانے کو یوں بدل ڈالے طرز کہن صبح نو کبھی چھوڑے فطرت جو مشاطگی! کریں کچھ تو ہم بھی جتن صبح نو رکھیں رشتہ قائم جو برگ و سمن تبھی گل ہو رشک چمن صبح نو یہ انداز و اطوار بدلو ابھی یہ بادہ یہ خم انجمن صبح نو
  2. امان زرگر

    آؤ پتھر کو پھول سے بدلیں

    آؤ پتھر کو پھول سے بدلیں اپنی ضد کو اصول سے بدلیں نور بخشے جو سرمہ آنکھوں کو ان کے پاؤں کی دھول سے بدلیں لوح قسمت میں جو لکھا ہے ملے لالہ و گل ببول سے بدلیں شوق طاعت ہوس سے برتر ہے لفظ منکر قبول سے بدلیں آج گردوں خزاں نصیب لگے موسم گل ملول سے بدلیں
  3. امان زرگر

    تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری

    تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری. آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری. برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی . اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری. یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر. کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری. احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی. دکھلائے طلاطم سا پھر موج...
  4. امان زرگر

    دیا بجھانے کی ضد میں ہیں وہ

    دیا بجھانے کی ضد ہے ان کو. اندھیرا لانے کی ضد ہے ان کو. اجاڑ کر میرے دل کی بستی. نئے ٹھکانے کی ضد ہے ان کو. نگاہ و دل جن کے منتظر تھے. نظر چرانے کی ضد ہے ان کو. نیا ہے منظر نئے زمانے. کہاں پرانے کی ضد ہے ان کو. بدل کے چرخ کہن کو نو سے. ستم اٹھانے کی ضد ہے ان کو. بھلا سا دنیائے آب و گل میں. نگر...
  5. امان زرگر

    عشق مجنوں بنائے دیتا ہے

    عشق مجنوں بنائے دیتا ہے. بات یونہی بڑھائے دیتا ہے. دھار لیتا ہے چاند روپ ان سا. آہ کیا ظلم ڈھائے دیتا ہے. پھرتا رہتا ہے ان کی گلیوں میں. سارے جھگڑے بھلائے دیتا ہے. روئے دیرینہ، کارگاہ سحر. عزم نو کو دکھائے دیتا ہے. لاد لیتے ہیں عجز کاندھے پر. ان کے در پر جھکائے دیتا ہے.
  6. امان زرگر

    اشک گردوں سے روانی سیکھیں

    اشک گردوں سے روانی سیکھیں. غم کی روداد سنانی سیکھیں. درد پرکیف رہے سوزاں بھی. رونی صورت جو بنانی سیکھیں. باد نو خیز چلے غنچے کھلیں. آنکھ گلچیں جو بچھانی سیکھیں. اک تغیر ہے بپا عالم میں. اب روش کہنہ بھلانی سیکھیں. ہم کہ مجبور سے انساں ٹھہرے. کس طرح برق فشانی سیکھیں.
  7. امان زرگر

    کیا یہ مطلع ہو سکتا ہے؟(مفتعلن فاعلن مفتعلن)

    دل پہ اثر آہ پرسوز کرے. چشم زدن اشک آموز کرے.
  8. امان زرگر

    برائے اصلاح (اک حقیقت یا فسانہ زندگی)

    اک حقیقت یا فسانہ زندگی. راز ہستی کا بہانہ زندگی. ارتباط آب و گل اور رنگ و بو. حسن فطرت کا نشانہ زندگی. آشیاں سے اس پرے منظر کئی. اک تلاش آب و دانہ زندگی. اس کی وسعت میں نہاں ارض و سما. ایک رمز صوفیانہ زندگی. اتفاقی ہے تجرد ذات کا. مجھ میں پنہاں صد زمانہ زندگی.
  9. امان زرگر

    اصلاح درکار.. دل پہ اک حالت تھی طاری چھوڑ دی

    عشق مجنوں بنائے دیتا ہے. بات یونہی بڑھائے دیتا ہے. دھار لیتا ہے چاند روپ ان سا. آہ کیا ظلم ڈھائے دیتا ہے. پھرتا رہتا ہے ان کی گلیوں میں. سارے جھگڑے بھلائے دیتا ہے. روئے دیرینہ، کارگاہ سحر. عزم نو کو دکھائے دیتا ہے. لاد لیتے ہیں عجز کاندھے پر. ان کے در پر جھکائے دیتا ہے.
  10. امان زرگر

    غزل اصلاح کے واسطے۔۔ (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    ہم نے عجز و انکساری چھوڑ دی۔ خواہشوں کی پیروکاری چھوڑ دی۔ اوڑھ کر تن پر لبادہ ذات کا۔ بے خودی، بے اختیاری چھوڑ دی۔ گر تڑپنا ہی مقدر ہے تو پھر۔ کوئے زنداں آہ و زاری چھوڑ دی۔ دل ہوا جب خوگرِ رنج و الم۔ سو وہ رسمِ غمگساری چھوڑ دی۔ ظلمتِ شب کا مداوا کس طرح۔ روشنی نے لالہ کاری چھوڑ دی۔
  11. امان زرگر

    نعت اصلاح کی خاطر پیشِ خدمت ہے( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ان کے جیسا کوئی دو جہاں میں نہیں۔ جانِ عالم ہیں وہ اور سب سے حسیں۔ چھو کے دامانِ رحمت چلی جب ہوا۔ فصلِ گل چھا گئی غنچئہِ گل کھلا۔ پھر خزاں ہو گئی جا کے خلوت گزیں۔ حسنِ انوار سے پھر منور ہوا۔ خلد سے برتری کا تصور ہوا۔ دشت تھا تیرگی کے جو پہنچا قریں۔ ذات اقدس نے بخشا ہے پائے شرف۔ معجزے رونما ان...
  12. امان زرگر

    نعت، اساتذہ سے اصلاح کی درخواست

    خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع فاعلاتن مفاعلن فِعْلن آؤ دل میں اُنہیں بساتے ہیں. بات کچھ تو چلو بڑھاتے ہیں. ہوتے ہیں تاجور مقدر کے. در پہ آقا جنہیں بلاتے ہیں. منزلِ عشق ہے مدینے میں. چل اسی سمت چلتے جاتے ہیں. اپنے غم کی بچشم نم آؤ. ان کو جا داستاں سناتے ہیں. روز محشر کوئی کہے کہ چلو. جام ہاتھوں...
  13. امان زرگر

    نعت کی اصلاح درکار ہے۔ اساتذہ نظرِ کرم فرمائیں

    متدارک مثمن سالم فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن وسعتیں جا ملیں حد سے ادراک کی. رفعتیں بڑھ گئیں عرش سے خاک کی. دورِ ظلمت چھٹا روشنی ہو گئی. جب کہ آمد ہوئی شاہِ لولاک کی. مقصدِ جاں رہا انس و جاں کی فلاح. مال و دولت نہ ہی فکر پوشاک کی. کوئی صادق کہے اور کوئی امیں. دھوم ہر جا مچی رحمتِ پاک کی. لاج رکھ...
Top