غزل اصلاح کے واسطے۔۔ (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

امان زرگر

محفلین
ہم نے عجز و انکساری چھوڑ دی۔
خواہشوں کی پیروکاری چھوڑ دی۔
اوڑھ کر تن پر لبادہ ذات کا۔
بے خودی، بے اختیاری چھوڑ دی۔
گر تڑپنا ہی مقدر ہے تو پھر۔
کوئے زنداں آہ و زاری چھوڑ دی۔
دل ہوا جب خوگرِ رنج و الم۔
سو وہ رسمِ غمگساری چھوڑ دی۔
ظلمتِ شب کا مداوا کس طرح۔
روشنی نے لالہ کاری چھوڑ دی۔
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر درست۔لیکن کچھ دو لختی محسوس ہوتی ہے۔
اوڑھ کر تن پر لبادہ ذات کا۔
بے خودی، بے اختیاری چھوڑ دی۔
ذات لے لبادے کا ربط بے خودی بے اختیاری سے نہیں
گر تڑپنا ہی مقدر ہے تو پھر۔
کوئے زنداں آہ و زاری چھوڑ دی۔
کوئے زنداں کا تعلق؟
روشنی کی لالہ کاری بھی ایضآ
 

امان زرگر

محفلین
خون دل دے کے نکھارا ہے رخ برگ گلاب.
.
.
دل پہ اک حالت تھی طاری چھوڑ دی.
وہ تڑپنا بے قراری چھوڑ دی.
فصل غم کی دشت دل میں دوستو!
آنسوؤں سے آبیاری چھوڑ دی.
رب سے بھی پہلو تہی کرنے لگے.
خوئے عجز و انکساری چھوڑ دی.
توڑ ڈالا اہل حسرت کا فسوں.
خواہشوں کی پیروکاری چھوڑ دی.
شب گزیدہ زلف برہم کا بیاں.
وہ غزل کی ریزہ کاری چھوڑ دی.
طے ہوا قصہ عدم کی شرط پر.
اب وہ فریاد آہ و زاری چھوڑ دی.
دل ہوا جب خوگر رنج و الم.
سو وہ رسم غمگساری چھوڑ دی.
چپ تھے، محو استراحت تھا جنوں!
درد دل نے اب خماری چھوڑ دی،
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
تکنیکی طور پر درست۔لیکن کچھ دو لختی محسوس ہوتی ہے۔
اوڑھ کر تن پر لبادہ ذات کا۔
بے خودی، بے اختیاری چھوڑ دی۔
ذات لے لبادے کا ربط بے خودی بے اختیاری سے نہیں
گر تڑپنا ہی مقدر ہے تو پھر۔
کوئے زنداں آہ و زاری چھوڑ دی۔
کوئے زنداں کا تعلق؟
روشنی کی لالہ کاری بھی ایضآ
سر بہتری کی کوشش کی اے.
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں بس قافیہ دونوں مصرعوں میں ستعمال ہوتا ہے، اور کیونکہ اسی سے قافیوں کا تعین ہوتا ہے، تو اس میں آگے آنے والے قافیوں کے حساب سے ہی قافیے رکھنے ضروری ہوں گے۔ جیسے اسی غزل کے مطلع میں انکساری کے ساتھ شرم ساری یا غم گساری قوافی نہیں ہو سکتے، (ہوں گے تو ایطا کا حکم لگے گا) کیونکہ ان تمام الفاظ میں آخر میں ’ساری‘ مشترک ہے، محض ’اری‘ نہیں۔ اعراب بھی یکساں ہونے چاہئےں، یعنی مَل، کے ساتھ گھُل، یا جَل قوافی غلط ہوں گے۔
 
Top