بیتابی ہے رسوائی تشہیر سے کیا حاصل
خاموشی ہے گویائی تقریر سے کیا حاصل
کونین سراپا ہے ایک شاہد یکتا کا
خود حسن مجسم ہے تصویر سے کیا حاصل
مختاری ہے مجبوی ، مجبوری ہے مختاری
تقدیر معطل ہے تدبیر سے کیا حاصل
جب نقش دوئی دل سے مٹ جائے تو ظاہر ہو
تحقیر سے کیا نقصاں ، توقیر سے کیا حاصل
ماہیا
گھنگور گھٹاؤں سے
پھر عشق مرا جاگا کوئل کی صداؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
جی کس کو ترستا ہے
کیوں درد برستا ہے ساون کی ہواؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
کیوں یاد...
شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
تم جس پہ رو رہے تھے یہ کس کا مزار تھا
تڑپوں گا عمر بھی دل مرحوم کے لیے
کمبخت نامراد،؛لڑکپن کا یار تھا
سودائے عشق اور ہے ، وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا...
حضرات یہ بندہ کم علم اس علمی محفل کو اپنی ایک علمی تشنگی دور کرنے کے لیے دعوت غور و فکر دیتا ہے اکثر کتابوں میں حضرت مہدی کا ذکر پڑھا ہے جو قیامت کے نزدیک آئیں گئے لیکن ان کے بارے میں مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں اور پھر کئی جگہ بڑی متضاد روایات ان کے بارے میں نظر سے گزری ہیں ان باتوں کی کچھ...
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلوں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا
یوں مسکرائے جاں سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا
کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر...
ترے جلوں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زبان رکھ دی
مٹی جاتی تھی بلبل جلوہ گل ہائے رنگیں پر
چھپا کر کس نے ان پردوں میں برق آشیاں رکھ دی
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں !
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی
قفس کی یاد میں یہ اضطراب دل، معاذ اللہ...
گلوں کی جلوہ گری، مہر و مہ کی بوالعجبی
تمام شعبدہ ہائے طلسم بے سببی
گذر گئی ترے مستوں پہ وہ بھی تیرہ شبی
نہ کہکشاں نہ ثریا نہ خوشہ عنبی
یہ زندگی ہے یہی اصل علم و حکمت ہے
جمال دوست و شب مہ و بادہ عنبی
فروغ حسن سے تیرے چمک گئی ہر شے
ادا و رسم بلالی و طرز بولہبی
ہجوم غم میں نہیں...
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی و زیبائی
جو خون اچھلتا ہے وہ رنگ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرہ شبنم میں ہنگامہ...
ایک ایک جھروکا خندہ بہ لب ایک ایک گلی کہرام
ہم لب سے لگا کر جام ہوئے بدنام بڑے بدنام
رت بدلی کہ صدیاں لوٹ آئیں اف یاد کسی کی یاد
پھر سیل زماں میں تیر گیا ایک نام ، کسی کا نام
دل ہے کہ اک اجنبی حیراں ، تم ہو کہ پرایا دیس
نظروں کی کہانی بن نہ سکے ہونٹوں پہ رکے پیغام
اے تیرگیوں...
یا رب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا...
ایک روز اس نے ہاتھ ہلائے تھے دور سے
آنکھوں میں آج بھی وہی منظر اداس ہے
دیکھی ہے ان آنکھوں میں ہلکی سی نمی
یوں لگ رہا ہے جیسے سمندر اداس ہے
جب بھی اداس چاندنی تم کو دکھا ئی دے
سمجھو کہ ایک چاند کا پیکر اداس ہے
ویسے یہ اشعار ہیں کس شاعر کہ؟؟