اختر شیرانی گھنگور گھٹاؤں سے

راہب

محفلین
ماہیا​
گھنگور گھٹاؤں سے
پھر عشق مرا جاگا کوئل کی صداؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
جی کس کو ترستا ہے
کیوں درد برستا ہے ساون کی ہواؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
کیوں یاد ستاتی ہے
بو کس کی یہ آتی ہے برکھا کی فغاؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
مستانہ ہوا آئی
یاد ان کی ادا آئی پھولوں کی اداؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے
یہ عشق نہیں پھلتا
کوئی کام نہیں چلتا اختر کی دعاؤں سے
گھنگور گھٹاؤں سے

اختر شیرانی
 
Top