ادھوری نظم
اندھیری شام کے ساتھی
ادھوری نظم سے زور آزما ہیں
برسرِ کاغذ بچھڑنے کو
سنو.......تم سے دلِ محزوں کی باتیں کہنے والوں کا
یہی انجام ہوتا ہے
کہیں سطرِ شکستہ کی طرح ہیں چار شانے چت
کہیں حرفِ تمنا کی طرح دل میں ترازو ہیں
سنو......ان نیل چشموں سخت جانوں بے زبانوں پر
جو گزرے گی سو گزرے گی
مگر...
کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر میں
چلا ہے شام کا سورج کہاں آہستہ آہستہ
مکیں جب نیند کے سائے میں سستانے لگیں تابش
سفر کرتے ہیں بستی کے مکاں آہستہ آہستہ
پہلے تو چوپال میں اپنا جسم چٹختا رہا تھا
چل نکل جب بات سفر کی پھیل گئی اعصاب میں چپ
اب تو ہم یوں رہتے ہیں اس ہجر بھرے ویرانے میں
جیسے آنکھ میں آنسو گم ہو جیسے حرف کتاب میں چپ
عباس تابش آج کی غزل کے نمائندہ شعراء میں سے ہیں۔آج ہی محمداحمد بھائی نے ان کے ایک مصاحبہ کا ربط ارسال کیا، تو سوچا کہ سال بھر قبل جو عباس تابش کی کلیات "عشق آباد" ڈھونڈی تھی، کیونکہ مدت سے شائع نہ ہوئی تھی ،اب اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئےتابش کے کلام میں سے پسندیدہ اشعار کو اکٹھا کیوں نہ کر دیا...