(٥٢)
کیا فیض بخشیاں ہیں رُخِ بے نقاب کی!
ذرّوں میں رُوح دوڑ گئی آفتاب کی
طاقت کہاں مشاہدۂ بے حجاب کی
مجھ کو تو پھُونک دے گی تجلّی نقاب کی
مجھ کو خبر رہی نہ رُخِ بے نقاب کی
ہیں خود نمودِ حُسن میں شانیں حجاب کی
اِتنا کہ اذنِ شورش و فریاد دیجئے
مجھ کو سوال کی نہ ضرورت جواب کی
میں...