حال جو کہ تمہارے دیں کا ہے
اس سے ابتر مرے یقیں کا ہے
کیوں مقدر کو پیٹتا ہوں میں
غم تو ان کی نہیں نہیں کا ہے
دل کے بدلے میں جاں گئی ہوتی
دل کا جانا بهی اب کہیں کا ہے
اے خدا تو ہی مجھ کو بتلا کیا
حق مری گهس چکی جبیں کا ہے
یہ جو فتنہ ہے عشق کا برپا
آسماں کا ہے یا زمیں کا ہے
کیونکہ صاحب شکایتیں...