جائیکہ کند جلوہ گری زاغ چو طاؤس
اہلی تو چو سیمرغ برو گوشہ نشیں باش
اہلی شیرازی
اُس جگہ کہ جہاں کوے موروں کی طرح جلوہ گری کرتے ہیں، اہلی تو سیمرغ کی طرح وہاں سے چلا جا اور گوشہ نشیں ہو جا۔
خوبصورت تحریر ہے راحیل صاحب اور خوب نشاندہی کی ہے آپ نے۔
سچ پوچھیے تو کافی عرصے سے میں نے تنقید پڑھنی چھوڑ رکھی ہے وجہ اُس کی وہ بھاری بھر کم مغربی اصطلاحات اور ان کا بے جا استعمال ہے جو ہمارے ناقد زبردستی ہمارے سروں پر تھوپ دیتے ہیں۔
از کوئے تو چوں باد برآشُفتم و رَفتم
گردے ز دلِ مدعیاں رُفتم و رَفتم
بابا فغانی شیرازی
تیرے کوچے سے میں ہوا کی طرح مضطرب و پریشان اُٹھا اور چلا گیا اور تیرے عشق کے دعویداروں کے دلوں سے گرد اُڑا کر اُن کو صاف کیا اور چلا گیا۔
اس کے لیے برصغیرکے مدارس میں ایک "آمد نامہ" کتاب رایج رہی ہے جس میں مصاد ر اور انکی گردانیں بچوں کو یاد کرائی جاتی تھی ہیں، یہ کتاب نیٹ پر موجود ہے۔ اسی طرح کی کچھ سال قبل پنجاب یونیورسٹی نے بھی ایک مفید کتاب شائع کی تھی۔
فارسی زبان و ادب کا اصل کام تو حسان خان صاحب کر رہے ہیں محترم، میری بساط تو فقط روزانہ ایک شعر ترجمہ کی ہے اور وہ بھی تگ و دو کے بعد:) خان صاحب کا جذبہ قابلِ صد ستائش ہے۔
جن دوستوں کو اوپر زمانہ ماضی کی بحث میں کچھ دلچسپی ہے ان کے لیے ایک مصرعہ
ع۔ دیدی کہ خونِ ناحقِ پروانہ شمع را
اس مصرعے میں ایک مصدر کا استعمال ہوا ہے ، اس مصدر کی پہچان کیجیے ، پھر دیکھیے کہ اُس مصدر سے فعل کا جو صیغہ آیا ہے وہ کس زمانے کا ہے اور اُس میں کس شخص کی بات ہو رہی ہے اور کیا ترجمہ...
میرے لیے مضارع کو پہچاننے سے زیادہ مشکل ہمیشہ یہ رہا کہ مضارع سے مصدر کو کیسے پہچانا جائے۔ اگر ماضی اور مستقبل کا علم ہو تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فعل جو سمجھ نہیں آ رہا وہ مضارع ہی ہوگا کہ امر اور نہی بھی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں لیکن کسی مضارع سے مصدر تک پہنچنا میرے لیے ہمیشہ سے دردِ سر...
دیکھیے و ہ کا ترجمہ می میں نہیں بلکہ خرد میں چھپا ہوا ہے۔ میں کچھ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
سب سے پہلے علم ہونا چاہیے کہ مصدر کیا ہے۔ مصدر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام تو ہو لیکن یہ نہ علم ہو کہ وہ کام کب ہوا یا کس نے کیا۔ یہ کلید ہے، اردو میں مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس لفظ کے آخر میں...
میرے مطالعے میں جو کتاب برس ہا برس سے رہی ہے وہ پروفیسر رازی کی خود آموز فارسی ہے۔ اردو بازار لاہور کے ایم آر برادرز نے شائع کی ہے ، پہلا ایڈیشن شاید 1950ء کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ مفید ہے لیکن روایتی کتابوں کی طرح ہے یعنی چیزیں ساری بیان کر دیتے ہیں وضاحت اور تفصیل کم ہوتی ہے۔ فارسی تو خیر...
شکر ہے آپ نے وضاحت کر دی ورنہ اپنے مراسلے پر کراس لگا دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ آپ میرے "لا حول۔۔۔۔۔۔" سے متفق نہیں ہیں یعنی اس پوسٹر کو صحیح سمجھتی ہیں :)
فارسی اردو کے مشترک الفاظ بے شمار ہیں، بس ان میں چھپے زمانے اور ضمیریں قابو میں آ جائیں تو بس سمجھیں کام بن گیا۔ یہ فارسی زبان کا حُسن ہے کہ ایک ہی لفظ میں نہ صرف زمانہ بھی چھپا ہوتا ہے بلکہ شخص بھی، اردو انگریزی وغیرہ میں اس کے لیے کم از کم دو یا اس سے زیادہ الفاظ ہوتے ہیں، مثلا "نوشت" اس میں...