اس بات سے متفق ہوں کہ کمیٹی مختصر ہونی چاہیے۔ اس لئے خیال یہ ہے کہ صرف چنیدہ افراد ہی شامل کیے جائیں۔ لیکن اگر احباب بڑی کمیٹی بنانا چاہیں تو انکار اس سے بھی نہیں۔۔۔ :) میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ باقاعدہ لکھنے والے جیسے سر آسی، سر خلیل، احمد بھائی، چیمہ صاحب یا فرحت جیسے لوگ ہی کمیٹی کا حصہ بنیں۔
سر اگر آپ کے پاس مناسب وقت ہو تو تھوڑی تعریف اس تحریر کی کر دیں۔ جو ادب پارہ کہلائے جانے کے قابل ہو۔ مجھ جیسے کم مطالعہ اور نو آموز لکھاری بھی ہیں۔ اس ضمن میں اگر کچھ رہنمائی ان کو لکھنے سے پہلے ہی میسر آجائے تو معیار بہتر ہوجائے گا۔ ساتھ میں سیکھنے کے عمل سے بھی گزر جائیں گے۔
میاں یہ جو نام آپ لوگوں کے لکھے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں لکھے کے آپ کہیں اوپری سطور والوں کی کمیٹی بنا دیں۔ بلکہ اس لئے لکھے ہیں کہ آپ بھی شامل ہوں کمیٹی میں۔
بہت ہی بہترین کتاب کے بارے میں آپ نے معلومات دی ہیں۔ شکیل پتافی صاحب کے شاگرد یہاں دفتر میں میرے ساتھی ہیں۔ ان کے ذمہ لگا دیا ہے کہ اب جس دن بھی راجن پور جائیں۔ مجھے ان کی کتاب لا کر دیں۔
خلیل بھائی آپ لوگوں کے ہوتے میں سربراہ بننے کا قائل نہیں۔ بلکہ مجھے سچ پوچھیں تو کمیٹی میں بیٹھنے کا بھی شوق نہیں۔ ایک نام تو اپنے عبد الرحمن بھائی کا ہے۔ دوسرا محمداحمد اور فلک شیر بھائی آنا چاہیں؟ سر محمد یعقوب آسی اگر حامی بھر لیں تو اور بھی لطف رہے گا۔
فرحت کیانی ، ماہی احمد ، سید فصیح احمد...
اپنی کھڑکی پر گرد جمی ہو تو باہر کے تمام مناظر دھندلے اور گدلے نظر آتے ہیں۔ بہت اچھا لکھا آپ نے بٹ صاحب۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
اب راز کی بات ہوجائے۔ اعظم کا ڈنر یادگار رہا یا نہیں۔۔۔ :)
جناب میں تو محفل کے سیاسی مبصروں پر کبھی بھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ یہ تو غصہ ہی اس قدر تھا کہ ادھر آنکلا۔ کسی مدرسے کے طلباء مریں۔ عورتیں سڑکوں پر گھسیٹی جائیں۔ اور آپ دیکھتے رہیں سیاسی تناظر۔۔۔ مریم نواز مرتی۔ سڑکوں پر گھسیٹی جاتی۔ حمزہ شہباز کسی پلے کی طرح مرا ہوتا۔ تو میں کہتا کہ ہاں سیاسی...
اوہ اچھا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں ذہن بھی پڑھ لیتا ہوں۔۔۔ خیر آپ کی مراد جو بھی تھی۔ اگر ان واہیات بدمعاش کتوں کے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی آپ گنجو لیلوں کو برا کہنے پر رضامند نہیں۔ تو آپ سے بحث بیکار ہے۔ جو برے کو برا نہ کہہ سکے۔ بلکہ اس کی تاویل تراشے۔ اس سے کوئی مکالمہ بھی کرے تو کیا۔ والسلام
ہم کہاں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
جلوہ جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئینے سے باہر آئے
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
شعر کا روپ بدل کر باقیؔ
دل کے کچھ زخم...
آپ لاہور کے مقامی بدمعاشوں کی تاریخ پڑھیے۔ خاص طور پر گزشتہ تیس سال کی۔ اور دیکھیے کہ کون سا بدمعاش کس طریق سے مارا گیا۔ اس کے بعد فیصلہ کیجیے کہ طریق ہے یا نہیں۔ زیادہ نہیں تو بس ناجی بٹ، بھولا اور عاطف جیسے چند کرداروں ہی کی زندگی ملاحظہ کیجیے۔