رُباعی از مُلا مُظفر حُسین
زاہد بہ کرم تُرا چو ما نشناسد
بیگانہ ترا چو آشنا نشناسد
گفتی کہ گنہ مکن کہ من قہارم
ایں را بہ کسے گو کہ ترا نشناسد
زاہد، تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح ہم تجھے تیرے لطف و کرم سے جانتے ہیں، اور کوئی بیگانہ تجھے اُس طرح نہیں جانتا جس طرح آشنا جانتا ہے۔ تُو نے کہا کہ...
لوگ اردو محفل کی سالگرہ کی خوشیاں منا رہے ہیں اور میں آج دہرا سوگ منا رہا ہوں: ایک تو آج عید کی ساڑھے آٹھ چھٹیاں ختم ہو گئیں اور دوسرا آج قید با مشقت کے سترہ سال پورے ہو گئے اور رہائی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں! اللہ اللہ یہ بے بسی۔
کاش یہ دلجوئی آپ نے مجھ سے بھی کی ہوتی :) ابھی کچھ ہفتے پہلے یعنی نظامت چھوڑنے کے سال بعد بھی، مجھے آپ کے پوسٹ کیے گیے پچھلےتین چار سالوں کے کیفیت ناموں کے اسکرین شارٹس "کاروائی" کے لیے بھیجے گئے تھے :)
پہلے مصرعے میں عید کو اضافت کے ساتھ پڑنے سے وزن خراب ہوگا، تقطیع یوں ہے
ز روے تس - مفاعیلن
ت عی دا ثا - مفاعیلن
ر ما را - فعولن
یہاں عید اور آثار کے دوران الف کا اسقاط یا وصل ہوا ہے۔ آ میں دو الف سمجھے جاتے ہیں اور اسقاط کی صورت میں ایک رہ گیا جو عید کی دال سے وصل کر کے ہجائے بلند بن گیا۔...
آپ کا دل اگر ہم سے بدلہ لے کر ہی خوش ہوتا ہے تو لے لیں بدلہ، کر لیں اپنا غصہ ٹھنڈا، میں قربانی دینے مطلب دوسرے نکاح کے لیے با دلِ ناخواستہ فقط آپ کی بدلے کی آگ ٹھنڈا کرنے کے لیے تیار ہوں :)