ارے جناب احسان کیسا!
یہ تو فراز صاحب سے محبت کا حق ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
آپ نہیں جان سکتے کہ فراز صاحب کے لئے میرے دل میں کتنی جگہ ہے۔
کاش وہ آج ہمارے درمیان ہوتے!
لیکن موت برحق ہے۔
اللہ تعالیٰ احمد فراز مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
بہت بہت شکریہ زبیر صاحب۔
فراز صاحب کی آخری کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" بہت ہی زبردست کتاب ہے، کبھی موقع ملے تو ضرور پڑھئیے گا۔
ویسے میرا بھی ارادہ ہے کہ اس کتاب کی تقریبن ساری غزلیں آہستہ آہستہ محفل اور اپنے بلاگ "نقشِ فریادی" پہ شئیر کروں۔
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے(1؎ )لگ...
:cry::cry::cry:
ضبط ایسا تھا کہ خلوت میں بھی آنسو نہ بہے
آج لیکن سرِ بازار ، مجھے رونا ہے
میں کہ انسان کی عظمت پہ یقیں رکھتی تھی
کرچیاں ہیں مرے افکار مجھے رونا ہے
لفظ گونگے ہوئے اظہارِ بیاں سے عاری
کھو گئی طاقتِ گفتار مجھے رونا ہے
آپ سب کے مشوروں کی روشنی میں کی گئی تبدیلیاں
مطلع بھی بدل دیا ہے۔
دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
میں بندہِ دنیا ہوں، خدا مانگ رہا ہوں
اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج کیا کیا مانگ رہا ہوں
الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں...
آپ کے مشوروں کی روشنی میں کی گئی چند تبدیلیاں
مرا دل آگ میں اپنی جلا آہستہ آہستہ
مجھے یہ زخم کس نے ہے دیا آہستہ آہستہ
کہ جیسے تُو ہُوا مجھ سے خفا آہستہ آہستہ
تری چاہت کا دیپک بھی بجھا آہستہ آہستہ
قمر سورج سے مشرق میں چھپا آہستہ آہستہ
شبِ ظلمت کا پردہ بھی ہٹا آہستہ آہستہ
تُو اپنے زخم مجھ...