یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا
دید اپنے کی تھی اسے خواہش
آپ کو ہر طرح بنا دیکھا
صورتِ گُل میں کھل کھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا
شمع ہو کر کے اور پروانہ
آپ کو آپ میں جلا دیکھا
کر کے دعویٰ کہیں انالحق کا
بر سرِ دار...
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
پیاسا صاحب اس شعر میں املا کی کچھ غلطیاں ہیں۔ براہِ مہربانی انہیں درست کر دیں۔
ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحرِ تبسم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی