شاید بال جبریل کی نظم ہے قرطبہ ۔
جب یہ نظم پہلے مرتبہ پڑھی تھی ۔شاید 1992 میں تو اقبال کے افکار اور کیفیات کا منظم ترین عکس نظر ایا تھا اس میں ۔ کیفیات کی شدت ، افکار کی گہرائی کا امتزاج ایک موثر تصویر رکھتا ہے اس میں
سلسہء روزو شب ۔۔۔
ذرا تبدیل ہیں کلمات، میرے خیال میں ۔
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں