تندور والی کو بھی بھٹیارن ہی کہا جاتا ہے۔ دراصل پہلے بھٹیارنیں صبح اور دوپہر کو تندور پر روٹیاں لگاتی تھی اور سہ پہر سے چنے اور مکئی وغیرہ بھونتیں تھی۔
اس غزل کے دو اشعار میں کچھ غلطیاں تھیں۔ درست کر کے دوبارہ پوسٹ کر رہا ہوں۔
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات، بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پائندہ ہیں ذرّوں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر...
بہت شکریہ نوید صاحب! آپ کو محفل میں کافی عرصے بعد دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ :) اور ہاں میں نے نظیر اکبر آبادی کی کافی غزلیں پوسٹ کی ہیں، ہو سکے تو انہیں بھی دیکھیے گا۔
فراز کے بقول
عیسیٰ نہ بن کہ اس کا مقدّر صلیب ہے
انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول
یا بابے بلھے کے الفاظ میں
علموں بس کریں او یار
اکّو الف ترے درکار
مصیبت یہ ہے کہ جب انسان کو کچھ چیزوں کا علم ہو جاتا ہے تو وہ بہت باریک بین ہو جاتا ہے۔ یہی مصیبت میرے ساتھ بھی ہے۔ میں یہ تو دعویٰ نہیں کرتا کہ...