ع: رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُو سیہ
یہ آپ کا ارشاد ہے، ارشد میانداد صاحب، میرا نہیں۔ میری عسکری صاحب سے اس سطح کی بے تکلفی نہیں ہے۔
اپنی تکلفات کی ہوتی ہے چاشنی
اچھا ہے کچھ حجاب ابھی درمیاں رہے
۔۔
جب اپنی جیب میں سب کھوٹے سکے ہوں گے تو یہی کچھ ہو گا پردیسی جی۔
پتہ نہیں کس کا شعر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک قوم جسے ملک کی ضرورت تھی
یہ ایک ملک جسے قوم کی ضرورت ہے
۔۔۔۔
شکریہ دوست ، مجھے کمپیوٹر کی اِن باتوں کا واقعی کوئی علم نہیں ہے۔ ایک بات میرے ذہن میں تھی، کہہ دی۔ اہلِ ہنر دیکھ لیں پتہ نہیں یہ قابلِ عمل ہے بھی یا نہیں۔ میرا خیال ہے اِن پیج ایک ’’آزاد‘‘ سافٹ ویئر ہے، وہاں شاید کچھ ہو سکے۔
ادھر ایک اور تاگے میں بات چل رہی ہے، ہمارے یار تو ایک ایک پر چیں بہ جبیں ہو رہے ہیں۔ آپ دو دو لے آئے۔ اگر یار ہاتھ ’’دھو‘‘ کے ادھر آ نکلے تو، آم، امردو، انگور اور الف کی ساری پٹی کو دھو ڈالیں گے۔
بجا ارشاد، جناب الف عین صاحب۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی؛ نہیں بلکہ بارہا اردو لکھتے لکھتے اس میں کلام اللہ سے اقتباس کی ضرورت آ جاتی ہے، وہاں (اس یائے غیر منقوط پر) میں خود کو بے بس پاتا ہوں۔
ایک تھوڑی سی بات عرض کر دوں، شاید کسی طور کام آ جائے۔ یہ خالی دندانہ در اصل ’’الفِ مقصورہ‘‘ کا ہے...