ابھی ایک دو لکھ دیتا ہوں
1- فعولن فعولن فعولن فعولن (ایک مصرعے میں چار بار فعولن)
فعولن کا علامتی نشان 1 2 2 ہے سو 1 2 2 ایک مصرعے میں چار بار۔
اس بحر میں ایک دو مشہور غزلیں
-جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں (غالب)
-ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں (اقبال)
-وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ (صوفی تبسم)
اس کے لیے بنیادی بحروں کے سانچے کا علم ہونا ضروری ہے، یعنی وہ چند معروف بحریں جو عام طور پر استعمال ہوتی ہیں ان کا علم ہونا چاہیے، اس کے بعد اپنے کہے شعر یا کلام میں کانٹ چھانٹ یا الفاظ کی ترتیب میں آسانی ہو جاتی ہے۔
آپ متحرک ساکن کو فی الحال بھول جائیں، یہ عروض کا سقم ہے، کیونکہ عروض عربی ہے اور عربی میں آخری حرف متحرک ہو سکتا ہے لیکن اردو فارسی میں آخری حرف ہمیشہ ساکن ہی ہوتا ہے، اور اسی سقم کو دور کرنے کے لیے یہ علامتی نظام وضع کیا گیا ہے۔
اس کا ایک سادہ سا اصول ہے
کسی بھی لفظ کو ہجوں میں توڑیں، جو دو...
یہ لیکچر پنگل کی طرف نکل گیا، جو ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کا عروض ہے۔ لیکن یہ بھی ہجائی نظام ہی ہے، مثال وہی لیتے ہیں جو اوپر ہے، اور ہم ماتروں کی بجائے ہجوں سے ان کو سمجھتے ہیں۔
آدمی اس کا وزن فاعلن ہے۔ اور اس میں تین ہجے (یا پانچ الفاظ) ہیں:
آ ۔ فا (دو حرف سو 2)
د - ع (ایک حرف سو ا)
می -...
ایک اور بات، جس سے پروفیسر صاحبہ کی عظمت میرے دل میں اور بڑھ گئی۔ چونکہ میں نے کتاب کا بالاستعیاب مطالعہ کیا تھا اور حرف حرف پر غور کیا تھا تو مجھے کچھ اشعار کی تقطیع میں ٹائپنگ کی کچھ معمولی غلطیاں نظر آئیں یعنی کچھ علامتیں آگے پیچھے تھیں، وہ میں نے ان کے گوش گزار کئیں تو انہوں نے اپنی ویب سائٹ...
جی اسی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔
مزے کی بات یہ کہ اردو عروض پر جو ہماری روایتی کتب ہیں وہ میں کئی کئی مہینوں تک چاٹتا رہا لیکن عروض کا یہ جن ایسا تھا کہ قابو ہی میں نہ آتا تھا، پھر یہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی، تھوڑے سے غور و فکر کے بعد عروض کی کلید میرے ہاتھ میں تھی۔ پھر میں نے پروفیسر صاحبہ سے ای...
ایں شرفم بس کہ شوی مشتری
ہیچ مدہ قیمتِ کالائے من
نظیری نیشاپوری
میرے لیے یہ شرف ہی بہت ہے کہ تُو خریدار بنے، تُو میرے مال و متاع و ساز و سامان کی کوئی بھی قیمت ادا نہ کر۔
حسبِ سابق، اس طرح کا کام کسی انگریز ماہر عروض نے ہی کیا ہوگا۔ بابائے اردو برطانیہ رالف رسل نے رباعی کے اوزان سمجھنے کے لیے اس طرح کا کلیہ اختراع کیا تھا۔ پھر کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ فرانسس پرچیٹ نے اردو عروض پر اپنی کتاب، جو شاید 1980ء کی دہائی میں شائع ہوئی تھی اس طرح کا ایک علامتی...
یہ "بریانی" نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کھا لی تو خواہ مخواہ کبھی انگریزوں کو شکست دونگا، کبھی انڈیا سے لڑتا پھروں گا، یا اور کچھ نہیں تو بیوی سے تو لڑائی پکی ہے سو بہتر ہے نہ ہی کھاؤں! :)
صرصر چہ در خرابئ من اضطراب داشت
بر شاخِ گُل نہ بُود گراں آشیانِ من
شیخ علی حزیں لاھیجی
تُند و تیز ہوا میری خرابی کے لیے کس قدر بے چینی و بے قراری و اضطراب میں تھی، شاخِ گُل پر میرا آشیانہ اتنا بھاری تو نہ تھا۔