شیشے سے مراد بھی پیمانہ یا ساغر ہی ہے۔ فیض کی ایک نظم شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں سے چند مصرعے۔
سب ساغر، شیشے، لعل و گہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
یا جیسے علامہ اقبال نے کہا تھا
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا کیا تو مرا ساقی نہیں ہے؟
سمندر سے ملے...