یہ کیسی رُت ہے
یہ کیسی رُت ہے
کہ ہر شجر
صحنِ گلستاں میں
ملول و تنہا سلگ رہا ہے
طیور کب سے چپ چاپ منقار زیرِ پر ہیں
ہوائیں نوحہ کناں
کہ اس باغ کی بہاریں
گئیں تو پھر لوٹ کر نہ آئیں
یہ کیسی رُت ہے
نہ برف باری کے دن
کہ شاخوں کے پیرہن پر
سپیدۂ صبح کا گماں ہو
نہ فصلِ گُل ہے
کہ ہر طرف شورِ جانفروشاں...