جب کبھی یادوں کا دروازہ کھلا آخرِ شب
کوئی در آیا بااندازِ ہوا آخرِ شب
ھم پشیمان ادھر اور ادھر وہ نادم
شام کا بھولا ھوا آھی گیا آخرِ شب
دل کے آنگن میں بصدِ ناز تھا وہ محوِ خرام
پھول ھی پھول تھا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
کر سکا پیش نہ عریانی کا جب کوئی جواز
آ گیا اوڑھ کے مریم کی رِدا آخرِ شب...