آگ کے پاس
پیرِ واماندہ کوئی
کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں
نوجوان بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں
(اِک رقابت کی سیاہ لہر بہت تیز
مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے)
جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی
مس و سیم کے کاسوں کی چمک!
اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے
کوئلے آگ میں جلتے ہوئے
کن یادوں کی کس...