تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو
جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا...
میری صبحِ وصل شامِ ہجر کی تمہید ہے
اور شامِ ہجر صبحِ محشر کا آغاز ہے
صید ہے عاجز تو ہے صیاد بھی عاجز نواز
بے پر و بالی مجھے بال و پرِ پرواز ہے
نکتہ پردازی میں وحشت پیروِ غالب ہوں میں
سرمے کو کہتا ہوں دودِ شعلۂ آواز ہے
(رضا علی وحشت)
قسمت میں نا امیدی و حسرت ہے کیا کروں
اس بے وفا سے مجھ کو محبت ہے، کیا کروں
کس کو خبر نہیں ہے کہ دیتا ہے وہ فریب
یاں تو فریب کھانے کی عادت ہے کیا کروں
قائل ہوں خوش کلامیِ واعظ کا میں ولے
پیرِ مغاں سے مجھ کو عقیدت ہے کیا کروں
(رضا علی وحشت)
نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم
محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم
ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم
صبر و تاب و تواں کے جانے سے
ہائے گُم کردہ کارواں ہیں ہم
دل کی لے کر خبر بھی دل کی نہ لی
پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم
آ کے جلدی کرو مسیحائی
اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم
آئینہ...
ہوئی رو رو کے سحر آج اُسے اور مجھے
کوئی جز شمع انیسِ شبِ ہجراں کب تھا
ہو کے مایوس نہ کیوں دیتے مسیحا بھی جواب
دردِ دل آہ مرا قابلِ درماں کب تھا
(منشی درگا پرشاد، لائق)
کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں
غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں
نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں
مجھے یہ وہم لاحق تھا، در و دالان ہیں میرے
مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں
تمہاری گفتگو سنتی رہی دنیا، پہ دم بھر میں
ہماری...
دریچہ
آخری سانس لے رہی ہے رات
دن ابھی ٹوٹ کے دو ٹکڑوں میں آ نکلے گا
نامکمل کئی وعدوں کی طرح
دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دھندلے تارے
منتظر آنکھوں میں آ گرتے ہیں قطرہ قطرہ
گونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز
صبح کے راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی
جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے
کھینچ دیتا ہے...
گلوکارہ: لتا منگیشکر
فلم: ممتا 1966
موسیقی: روشن
(راگ پہاڑی میں گیت)
رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے، بن کے کلی بن کے صبا، باغِ وفا میں
موسم کوئی ہو اس چمن میں رنگ بن کے رہیں گے ہم خراماں
چاہت کی خوشبو یونہی زلفوں سے اڑے گی، خزاں ہو یا بہاراں
یونہی جھومتے اور کھلتے رہیں گے، بن کے کلی بن کے صبا،...
پھر اس کے وعدۂ فردا پہ کھا گئے دھوگا
کہ جس کے قول و قسم کا کچھ اعبتار نہ تھا
وہ چار باتوں میں یوں صاف ہو گئے مجھ سے
بشکلِ آئینہ دل میں ذرا غبار نہ تھا
لحد میں کس لئے آخر کھلی رہی آنکھیں
فنا کے بعد کسی کو جو انتظار نہ تھا
پلایا شیخ کو اس وقت جامِ توبہ شکن
خزاں کی فصل نہ تھی، موسمِ بہار نہ...