روشن جمال ِیار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش ِگُل سے چمن تمام
حیرت غرور ِحسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسمِ یار کی خوبی کہ خود بخود!
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
دل خون ہوچکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
دیکھو تو...