اچھا، استاذ محترم۔۔۔ میں نے کچھ اضافے کیے ہیں اس غزل میں۔۔۔ ملاحظہ ہو:
دھوپ میں یوں ننگے سر چپ چاپ بیٹھی بے بسی
آس ٹوٹی، خواب بکھرے، ہائے میری بے بسی
سامنے بہتا رہا دریا مگر باقی رہی
تشنگی سی تشنگی اور بے بسی سی بے بسی
زندگی کے رنگ سارے اڑ گئے تصویر سے
رفتہ رفتہ کینوس پر چھائی ایسی بے بسی...