یہ عنوان میں نے ہی دیا تھا، اپنی ایک پرانی غزل سے اٹھایا ہے:
دوستوں نے دل میں جب ناوک ترازو کر دئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخِ آہو کر دئے
درد کے دریا میں غوطہ زن ہوا غواصِ شوق
موج خود کشتی بنی گرداب چپو کر دئے
سایہء دیوارِ جاناں، ظلِ طوبیٰ سے سوا
تو نے یہ کیا کہہ دیا! الفاظ خوشبو کر دئے
زندگی...