یہ غزل چار بار فعولن میں اگر تبدیل کر دی جائے تو میرے خیال میں زیادہ رواں ہو جائے گی۔
اگرچہ مرا دل شکستہ نہیں ہے
مگر پھر بھی یہ ہنستا بستا نہیں ہے
اتر جاتے ہیں کس طرح لوگ دل میں
بظاہر تو کوئی بھی رستہ نہیں ہے
تجھے گرچہ دعویٰ ہے دیوانگی کا
مگر حال کیوں تیرا خستہ نہیں ہے
ہمیں دھوپ سے بھی ہے...