سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں...
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں
واہ !
سارے اشعار ہی خوبصورت ہیں مگر اس شعر کی تو کیا ہی بات ہے
بہت ہی اعلٰی
تیری انکھیاں مے خانے ہیں
یہ آمد کا مصرع تھا اس لئے یہاں "انکھیاں" کے بجائے "آنکھیں" لکھنے کا کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ توجہ دلوانے کا شکریہ :)
دوسرے شعر میں قافیے کو دیکھتے ہوئے "جانے" استعمال کیا ہے۔ :)
آپ کے وقت اور صلاح کا بے حد شکریہ
شکریہ احمد صاحب۔
اگر واؤ ہٹایئں تو "شمع" کو تشدید کے ساتھ پڑھنا پڑے گا مگر "شمع" پر تشدید تو نہیں آتی نا:confused:
اب یہ وارث صاحب یا الف عین جی ہی بتا سکیں گے۔ :)
عشق محبت افسانے ہیں
پر دیوانے کب جانے ہیں
ہم کیوں مہ کش ہو بیٹھے ہیں
تیری انکھیاں مہ خانے ہیں
آس وفا کی رکھنے والے
عقل و خرد سے بیگانے ہیں
رات، چکور، سمندر سارے
تیرے ہی تو دیوانے ہیں
یا یہ تم ہو یا یہ ہم ہیں
یا پھر شمع و پروانے ہیں
جذبے، خواب اور عہد ہمارے
اپنی موت ہی مر...