تم جو عرفانؔ یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو
کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو
جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے
پھر بھی کیا کیا سرِ ریگِ گزراں لکھتے ہو
جس کے حلقے کا نشاں بھی نہیں باقی کوئی
اب تک اس رشتے کو زنجیرِ گراں لکھتے ہو
یہ بھی کہتے ہو کہ احوال لکھا ہے جی کا
اور یہ بھی کہ حدیثِ دگراں لکھتے...