اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
انسان بن گئی ہے کرن ماہتاب کی
چہرے میں گُھل گیا ہے حسیں چاندنی کا نور
آنکھوں میں ہےچمن کی جواں رات کا سرور
گردن ہے اک جُھکی ہوئی ڈالی گلاب کی
اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
غزل
(وسیم بریلوی)
میں اِس اُمید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستہ لے گا
میں بُجھ گیا تو ہمیشہ کو بُجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا
کلیجہ چاہیئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے...
غزل
(نواز دیوبندی)
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مُسکرایا دیر تک
بھولنا چاہا کبھی اُس کو اگر
اور بھی وہ یاد آیا دیر تک
خودبخود بےساختہ میں ہنس پڑا
اُس نے اِس درجہ رُلایا دیر تک
بھوکے بچوں کی تسلّی کے لیئے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
گُنگُناتا جا رہا تھا ایک فقیر
دھوپ رہتی ہے نہ...
غزل
(خمار بارہ بنکوی)
نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے
سکوں ہی سکوں ہے، خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت، مجھے کیا کمی ہے
وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے
محبت بھی تنہائیِ دائمی ہے
کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے
جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں...