عیدِ گل ہو، اور ہجومِ ساقیانِ سیم ساق
ایسی اک گردش بھی ہاں اے گنبدِ فیروزہ طاق
یوں بساطِ عیش پر ہو چنگ و بربط کا خروش
لحن میں تبدیل ہو جائے فغانِ اشتیاق
اپنے اپنے طرز میں ہو، ہر شریکِ بادہ فرد
اپنے اپنے رنگ میں ہو ہر حریفِ کیف طاق
راگ کے شعلوں سے دنیا کو بنا دیں یوں رقیق
زاہدوں کے آہنیں...