نتائج تلاش

  1. نویدظفرکیانی

    آپ جس کے سامنے سرتاج سے” اوئے“ ہوئے از نویدظفرکیانی

    آپ جس کے سامنے سرتاج سے” اوئے“ ہوئے پوچھتی ہے رات بسرائی کہاں موئے ہوئے اومنی بس میں گھسے تھے یا کسی پنڈال میں ناک بھی چپٹی ہوئی، چہرے پہ بھی ٹوئے ہوئے کر رہے تھے ٹیکس والے تاجروں سے ٹاکرا دیکھ کر آیا ہوں میں کٹے کئی چوئے ہوئے شہر تو بس دو طرح کے رہ گئے ہیں ملک میں یا دہوئیں میں گمشدہ یا گرد...
  2. نویدظفرکیانی

    غزل : گراں عہدِ وفا کی پاسداری کون کرتا ہے از نویدظفرکیانی

    گراں عہدِ وفا کی پاسداری کون کرتا ہے زمانے تیرے اِس پتھر کو بھاری کون کرتا ہے ہماری خود کلامی ہے جو ہم سے کھیل لیتی ہے ہمارے سامنے باتیں تمہاری کون کرتا ہے رہے ہیں سرخرو حدِ نظر تک کی مسافت میں مگر اگلے مراحل کی تیاری کون کرتا ہے لرزتے ‘ بھاگتے ‘ چھپتے ہوؤں کو دیکھ کر سوچو ! اِسی جنگل کے...
  3. نویدظفرکیانی

    تازہ نظم ۔ پچھتاوہ از : نویدظفرکیانی

    اب تو میں دور ...... بہت دور نکل آیا ہوں میں نے جس جادہ ء ہستی پہ قدم رکھا تھا جانے کس موڑ پہ وہ ساتھ مرا چھوڑ گیا خواب جو لے کے چلا تھا مجھے سوئے منزل کسی بچے کی طرح ہاتھ مرا چھوڑ گیا جانے کس وقت دھندلکے نے چرایا ہے مجھے جانے کس ساعتِ اژدر نے مجھے نگلا ہے خود کو میں اپنے ارادوں میں بہت...
  4. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ دور جاتے ہوئے قدموں کی نوا میں گُم ہوں از نویدظفرکیانی

    دور جاتے ہوئے قدموں کی نوا میں گُم ہوں جانے کب سے کسی صدمے کی فضا میں گُم ہوں تیری تصویر کہ باتیں کئے جائے مجھ سے اور میں ہوں کہ کسی چُپ کی گُُپھا میں گُم ہوں اپنی پہچان کی منزل نہیں آئی اب تک میں کہ خوشبو کی طرح بادِصبا میں گُم ہوں پی لیا جس نے مرے چین کو سگریٹ کی طرح ہائے اب بھی اُنہیں...
  5. نویدظفرکیانی

    غزل : محبت اب بھی میرا حوصلہ ہے از: نویدظفرکیانی

    محبت اب بھی میرا حوصلہ ہے اِسی تعویز سے ردِ بلا ہے کوئی طوفاں اٹھا تھا پھونکنے کو مرے شانے سے لگ کر سو رہا ہے دہواں ہوتے نہیں ہیں یونہی چہرے کوئی سورج کسی میں جل بجھا ہے اِسی میں قوم کی صورت ہویدا یہ جو دستِ گدا ہے آئینہ ہے میں حرفوں میں لکیریں کھینچا ہوں مرا افسانہ لکھا جا چکا ہے ابھی...
  6. نویدظفرکیانی

    غزل - حبس کا عالم ہے اور بادِ صبا کی بات ہے ۔ از : نویدظفرکیانی

    حبس کا عالم ہے اور بادِ صبا کی بات ہے گریہء پیہم ہے اور بادِ صبا کی بات ہے خشک پتے سرسراتے ہیں مرے اندر کہیں ہاتھ میں البم ہے اور بادِ صبا کی بات ہے زندگی بھر کی گھٹن کا کچھ مداوا تو کرے وقت سا محرم ہے اور بادِ صبا کی بات ہے آخرِ شب کے سفر میں کیا خبر کب ہو سحر سانس کچھ مدھم ہے اور بادِ صبا...
  7. نویدظفرکیانی

    غزل : رنگِ شب ہجراں بھی بہ اندازِ دگر ہے از :- نویدظفرکیانی

    رنگِ شب ہجراں بھی بہ اندازِ دگر ہے اِس درد کا عنواں بھی بہ اندازِ دگر ہے کام آتے نہیں ترکِ تعلق کے ارادے یہ منزلِ آساں بھی بہ اندازِ دگر ہے ہم شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہیں امیدِ بہاراں بھی بہ اندازِ دگر ہے سب سوختہ ساماں ہیں مکیں ہوں کہ مکاں ہوں شہروں کا چراغاں بھی بہ اندازِ دگر ہے...
  8. نویدظفرکیانی

    غزل - دہوپ سے بچنے کی خاطر سائباں رکھا گیا از: نویدظفرکیانی

    دہوپ سے بچنے کی خاطر سائباں رکھا گیا سہل انگاروں نے جانا آسماں رکھا گیا ہائے کیوں آغاز کر بیٹھا سفر اِس ذعم میں رہگذاروں کو بقدرِ رہرواں رکھا گیا کاوشِ تسخیرِ منزل ناخدا کے سر رہی میرا قصہ بہرِ زیبِ داستاں رکھا گیا جراتِ پرواز دیتا ہی نہیں بارِ بدن ورنہ میری پہنچ میں ہر آسماں...
  9. نویدظفرکیانی

    غزل : لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں از: نویدظفرکیانی

    لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں مجھ سا تشنہ کوئی ملا ہی نہیں عمرِ رفتہ کی ہے خبر کس کو جانے والا کوئی ملا ہی نہیں دل کی روداد آنسوؤں سے لکھی اور خامہ کوئی ملا ہی نہیں فکرِ منزل سے جان چھوٹ گئی ہم کو رستہ کوئی ملا ہی نہیں قفل شکنی نہ ہو سکی دل کی تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں ======...
  10. نویدظفرکیانی

    غزل: ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے ۔ از: نویدظفرکیانی

    ہمیشہ مضطرب موجوں کو رکھنا ہے سمندر نے سفر کا استعارہ بن کے رہنا ہے سمندر نے مری خوشیوں کے مول اُس نے خریدا ہے نشہ اپنا مرے ہر چاند کو خود میں ڈبویا ہے سمندر نے عجب طوفانِ غراں ہے بپا ہرفردِ خانہ میں اِسی دالان سے جیسے گزرنا ہے سمندر نے یہ مشتِ خاک نے پوچھا ہے اکثر موج میں آ کر کوئی طوفان...
  11. نویدظفرکیانی

    تازہ غزل : کیسے سمے کو چیر کر نکلا ہے رستہ چاند کا از ۔ نویدظفرکیانی

    کیسے سمے کو چیر کر نکلا ہے رستہ چاند کا اب کے تو شب زادوں نے بھی کھیلا ہے مہرہ چاند کا بے نام تاویلوں کے گرہن میں ہے سر ڈالے ہوئے نقشہ نویسوں نے کہاں بدلا ہے نقشہ چاند کا آنکھوں کو کھلنے ہی نہیں دیتی یہ ظالم تیرگی سب کو خبر ہے رات بھر بہتا ہے چشمہ چاند کا میدان تو آخر کو رہنا ہے سحر کے ہاتھ...
  12. نویدظفرکیانی

    ایک نظم - مسکراہٹ اور آنسو از نویدظفرکیانی

    پھر وہی شب کا سمے ہے‘ پھر وہی گہرا سکوت پھر وہی آنگن‘ وہی میں ہوں‘ وہی ہے اضطرار پھر وہی غرفہ‘ وہی تُو ہے ۔۔۔۔ نہیں‘ تُو اب کہاں ہو گئی تُو تو کسی گزرے ہوئے پل میں حنوط اے مری شمعِ دل و دیدہ‘ مری رختِ قرار ڈھونڈتی تو ہیں نگاہیں ہر کہیں‘ تُو اب کہاں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں بھلا تُو اب کہاں‘ تجھ کو مری...
  13. نویدظفرکیانی

    تازہ نظم : میں تنہا نہیں از :- نویدظفرکیانی

    نہیں میری بیٹی میں تنہا نہیں ہمیشہ مرے ساتھ رہتی ہو تم میں جب بھی کوئی گیت سننے لگوں تو آواز کے ساتھ بہتی ہو تم میں جب بھی کوئی بات کرنے لگوں مری بات کو آ کے کہتی ہو تم میں جب بھی غزل کوئی لکھنے لگوں تو قرطاس پر آن ڈھتی ہو تم میں جب بھی کتابوں کو پڑھنے لگوں تو نظموں فسانوں میں رہتی ہو تم...
  14. نویدظفرکیانی

    غزل : پھر اندھیرے نور کا دہوکہ پہن کر آئیں گے - از نویدظفرکیانی

    پھر اندھیرے نور کا دہوکہ پہن کر آئیں گے آگہی جب کانچ کا بُت ہے تو پتھر آئیں گے کٹ کے آنگن میں گری کیسی نگاہوں کی پتنگ لوٹنے والی تمناؤں کو چکر آئیں گے یہ جو کہساروں کی پھسلن ہے کہیں بہہ جائے گی دیکھنا اِک روز ہم چوٹی کو چھو کر آئیں گے موسموں نے جب بھی پہنی ہیں گلابی مہندیاں کیوں گماں...
  15. نویدظفرکیانی

    تازہ غزل : رنگِ دنیا دیکھتا رہتا ہوں میں از نویدظفرکیانی

    رنگِ دنیا دیکھتا رہتا ہوں میں خود کو خود سے مانگتا رہتا ہوں میں رات بھر کیوں جاگتا رہتا ہوں میں چاند سے کیا پوچھتا رہتا ہوں میں کیسا نابینا سمے ہے زیست کا سب سے آنکھیں مانگتا رہتا ہوں میں تشنگی بجھتی نہیں اظہار کی اپنے اندر گونجتا رہتا ہوں میں زعم ہے پتھرائے جانے کا مجھے اور دل کو تھامتا...
  16. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ یوں پسپاکب ہوئے تھے معرکہٴ ذات سے پہلے از: نویدظفرکیانی

    یوں پسپاکب ہوئے تھے معرکہٴ ذات سے پہلے نکل آتے تھے جگنو جنگلوں میں رات سے پہلے کچھ ایسی دھند ہے کہ عکس پڑتا ہی نہیں کوئی ہماری آگہی پر صورتِ حالات سے پہلے یہ خاک و خون سے آغشتہ پیکر کیا بتائے گا میں کتنی مرتبہ جیتا ہوں حتمی مات سے پہلے ہمارے نطق کو چھانا ہے کتنی بار اِس دل نے تمہارے ذکر سے...
  17. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ عکس عالم کے ہمارےآئینوں میں قید تھے از: نویدظفرکیانی

    عکس عالم کے ہمارےآئینوں میں قید تھے ہم مگر لاحاصلی کے زائچوں میں قید تھے در تھے ہر دیوار میں لیکن قدم اُٹھتے نہ تھے ہائے کیسا خوف تھا کن مقتلوں میں قید تھے کتنی مدت سے نہیں سوئے سحر کی آس میں جھٹپٹے کا وقت تھا یا ظلمتوں میں قید تھے عمر بھر چلتے رہے منزل مگر آئی نہیں جست بھر کے راستے کن فاصلوں...
  18. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ پھیکی ہے زیست اتنی ادائیں پہن کے بھی از: نویدظفرکیانی

    پھیکی ہے زیست اتنی ادائیں پہن کے بھی ظلمت میں کھو گئے ہیں ضیائیں پہن کے بھی کیسی رُتیں ہیں آج دریچے کے سامنے برسا رہی ہیں دھوپ گھٹائیں پہن کے بھی سپنے تمام عمر تراشے چلا گیا یہ دل تمہارے غم کی چتائیں پہن کے بھی قربانیوں کی رُت میں بھی ہم سرخرو نہیں ہیں برہنہ لہو کی قبائیں پہن کے بھی میں...
  19. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ روح کے اندر تھے سناٹے بہت : از نویدظفرکیانی

    روح کے اندر تھے سناٹے بہت ہم حصارِذات میں گونجے بہت موج کو کشتی بنا پائے نہیں وقت کے گرداب سے الجھے بہت کون سی منزل رہی پیشِ نظر یہ قدم چلتے رہے الٹے بہت ساحلِ ہستی کی گیلی ریت پر زائچے طوفان نے کھینچے بہت آس کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہجر کے کچھ کوس تھے لمبے بہت درد کا سیلاب اُترا ہی نہیں ہم...
  20. نویدظفرکیانی

    غزل ۔ اگر فرمائے جانا ہے یونہی مجھ پر کرم اکثر : از نویدظفرکیانی

    اگر فرمائے جانا ہے یونہی مجھ پر کرم اکثر ہمارے صبر سے رکھے توقع وہ بھی کم اکثر ہماری آبلہ پائی کو کتنے خار بخشے گی دھنک سی جو نظر آتی ہے یہ زیرِ قدم اکثر ہمیشہ ہم نے جن کے نام اپنی ہر خوشی کی ہے نجانے کیوں اُسی کے نام پر ملتے ہیں غم اکثر تری اِتنی بہت سی گفتگو سے بھی نہیں کھلتا بتا دیتا ہے جو...
Top