تازہ نظم ۔ پچھتاوہ از : نویدظفرکیانی

اب تو میں دور ...... بہت دور نکل آیا ہوں

میں نے جس جادہ ء ہستی پہ قدم رکھا تھا
جانے کس موڑ پہ وہ ساتھ مرا چھوڑ گیا
خواب جو لے کے چلا تھا مجھے سوئے منزل
کسی بچے کی طرح ہاتھ مرا چھوڑ گیا

جانے کس وقت دھندلکے نے چرایا ہے مجھے
جانے کس ساعتِ اژدر نے مجھے نگلا ہے
خود کو میں اپنے ارادوں میں بہت ڈہونڈتا ہوں
اپنے کھو جانے کا احساس بہت رہتا ہے

وقت گرداب کی صورت ہے مرے پاؤں میں
کسی تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہوں
میرے قدموں کو ٹھہرنے کی اجازت ہی نہیں
کس کو معلوم میں کس سمت اڑا جاتا ہوں

نہ کوئی چاند ‘ نہ جگنو نہ تمہارا چہرہ
ظلمتِ شب مرا مقدور نظر آتی ہے
جب بھی دیکھا ہے پلٹ کر یونہی چلتے چلتے
روشنی دُور ...... بہت دُور نظر آتی ہے

اب تو میں دُور ...... بہت دور نکل آیا ہوں
نویدظفرکیانی
 
Top