غزل
(جگر مراد آبادی)
ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ،...
غزل
(جگر مراد آبادی)
ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میںکیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوںگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا...
غزل
(پروین شاکر)
قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر و بام سجانے آئے
اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے...
غزل
(محسن بھوپالی)
اپنا آپ تماشا کر کے دیکھوں گا
خود کو خود سے منہا کر کے دیکھوں گا
وہ شعلہ ہے یا چشمہ کچھ بھید کھلے
پتھر دل میں رستہ کر کے دیکھوں گا
کب بچھڑا تھا کون گھڑی کچھ یاد نہیں
لمحہ لمحہ یکجا کر کے دیکھوں گا
وعدہ کر کے لوگ بھلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا
کتنا...
غزل
(شاداب لاہوری)
حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں
ادھر سے گزرا تھا سوچا سلام کرتا چلوں
نگاہ و دل کی یہی آخری تمنّا ہے
تمہاری زُلف کے سائے ميں شام کرتا چلوں
انہيں يہ ضِد کہ مجھے ديکھ کر کسی کو نہ ديکھ
ميرا يہ شوق کہ سب سے کلام کرتا چلوں
يہ ميرے خوابوں کی دُنيا نہيں سہی، ليکن
اب آ گيا ہوں تو...
غزل
(نسیم مخموری)
ٹوٹ گئے اشکوں کے موتی اب یہ دامن خالی ہے
کھو گئیں قدریں انسانوں کی اور پیراہن خالی ہے
ہاتھ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے، راہ میں کوئی ساتھ نہیں
تنہائی کی برکھا برسی، وصل کا آنگن خالی ہے
کس موسم کی بات کروں میں، کس رُت کو شاداب کہوں؟
ہر موسم کا وعدہ جھوٹا، شام سہاگن خالی ہے
میرے...
تعارفِ شاعر:
نام حسن رضا بریلوی۔
ولادت: 1862ء بریلی، وفات: 1908ء بریلی۔
داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ حجِ بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے۔ مشہور نعت گو تھے۔ دیوانِ غزلیات بھی شائع ہوا ہے۔
غزل
(حسن بریلوی)
حُسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جُولاں لے چلا
چُھٹ گیا دامن کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
لے چلا دل چھین کر وہ دشمنِ جاں لے چلا
آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا
بے مروّت ناوک افگن آفریں صد آفریں
دل کا دل زخمی...
غزل
(پنڈت رتن پنڈوری)
جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے
ملا نہ ہم کو کبھی عرضِ حال کا موقع
زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں
کمالِ شوق سے اپنی ہی آرزو کرتے
دلِ حزیں کے مکیں تو اگر صدا دیتا
تری تلاش کبھی ہم نہ کُو بہ...
غزل
(رئیس امروہوی)
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارا مرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولہ سا
عالمِ مستی و طرب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کھلتا کہ...
تعارفِ شاعر:
سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی۔ برِ صغیر کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہررموزِ علوم تھے۔ 12 ستمبر 1914 ء کو یوپی کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے۔
رئیس امروہوی کی تصانیف درج ذیل ہیں...