کاشفی

محفلین
غزل
(حسن بریلوی)
حُسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جُولاں لے چلا

چُھٹ گیا دامن کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
لے چلا دل چھین کر وہ دشمنِ جاں لے چلا

آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا

بے مروّت ناوک افگن آفریں صد آفریں
دل کا دل زخمی کیا پیکاں کا پیکاں لے چلا

مژدہ اس کو جس نے زیر تیغِ قاتل جان دی
حسرت اُس کم بخت پر جو دل میں ارماں لے چلا

بسملوں کو زخم زخموں کو مبارک لذتیں
سوئے مقتل پھر کوئی تیغ و نمک داں لے چلا

خونِ ناحق کی حیا بولی ذرا منہ ڈھانک لو
ناز جب ان کو سر خاکِ شہیداں لے چلا

حضرتِ ناصح خدا کے واسطے فریاد ہے
دل مجھے پھر جانب بزم حسیناں لے چلا

وادیٔ اَیمن سے نکلے طور پیچھے رہ گیا
اب کہاں اے اشتیاق دیدِ جاناں لے چلا

خاک عاشق جلوہ گاہِ یار سے جلد اُڑ گئی
پھر بھی اک اک ذرّہ اک اک مہر تاباں لے چلا

میرے سر کو چال دے کر تیغِ ابرو لے گئی
میرے دل کو پر لگا کر تیر مژگاں لے چلا

لٹ گیا عاشق سر بازار سودا بک گیا
جان لے لی عشق نے دل حُسنِ خوباں لے چلا

بزم محشر میں شہید جور کو رُسوا نہ کر
خونِ ناحق کیوں اُنہیں سر در گریباں لے چلا

خاک عاشق روکنے کو دُور تک لپٹے گئی
جب سمندِ ناز کو وہ گرم جُولاں لے چلا

میرے گھر تک پاؤں پڑ کر اُن کو لایا تھا نیاز
ناز دامن کھینچتا سوئے رقیباں لے چلا

کی ہیں کس کم بخت دل کے جذب نے گستاخیاں
کون بے پرواہ انہیں سوئے شبستاں لے چلا

ہم کو بسمل کر چلا قاتل پھر اس پر یہ ستم
خاک و خوں میں لوٹنے کا عہد و پیماں لے چلا

پائے قاتل دامن قاتل سے محرومی رہی
خاک میں سب حسرتیں خون شہیداں لے چلا

آخر اس پردے کی کچھ حد بھی ہے اے پردہ نشیں
جو تیری محفل میں آیا یاس و حرماں لے چلا

شمع تیری آرزو میں رات بھر روتی رہی
داغ ناکامی جگر میں ماہِ تاباں لے چلا

دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بُجھا کر لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بُجھا کر سوئے جاناں لے چلا
 

کاشفی

محفلین
تعارفِ شاعر:
نام حسن رضا بریلوی۔

ولادت: 1862ء بریلی، وفات: 1908ء بریلی۔
داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ حجِ بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے۔ مشہور نعت گو تھے۔ دیوانِ غزلیات بھی شائع ہوا ہے۔
 
Top