دلِ کم بخت کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے خواب
جیسے صحرا میں دکھا کرتے ہیں پیاسے کو سراب
بے ثباتی، بے یقینی، بے وفائی، دھوکا
انہیں ابواب کے مابین ہے دنیا کا نصاب
نیند تو دے نہ سکی خیر کتابوں نے مگر
دے دیا ہے شبِ تنہائی مجھے تیرا جواب
سوچتا ہے کیا زمانہ ہمیں کیا لینا ہے
ہم تو اپنے ہی خیالات میں...