غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
دھندلی دھندلی یادیں ہیں کچھ، گزرا ہوا زمانہ ہے
اکثر ماضی میں گم رہنا شیوہ اپنا پرانا ہے

ایک نگر ہے سچائی کا ایک نگر ہے خوابوں کا
ایک نگر سے دور ہیں اب تک، ایک میں آنا جانا ہے

کس کو حالِ درد سنائیں دلِ شکستہ کسے دکھائیں
سب وحشت کے زیرِ اثر ہیں سب کا یہی فسانہ ہے

اکثر درد چھپا لیتے ہیں لوگ ہنسی کے دامن میں
حال پتہ کرنے کا کسی کے یہ بھی اک پیمانہ ہے

کون اثر انداز ہے آخر تقدیر و تدبیر کے بیچ
الجھا الجھا سا رہتا ہوں یہ گتھی سلجھانا ہے

عقل و عشق میں بنتی نہیں تھی گزرے وقت کی بات ہے یہ
اب تو دنیا بدل چکی ہے دونوں میں یارانہ ہے

اس سے بڑھ کر کیا دے فائق اپنی دانائی کا ثبوت
چاہے جہاں مانے نہ مانے، وہ تیرا دیوانہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل،
دلِ شکستہ میں اضافت کا کھینچا جانا، دلے شکستہ پڑھا جانا اچھا نہیں لگتا 'دل ٹوٹا ہے' نہیں کیا جا سکتا؟
 
Top