نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    یہ کس کا لہو ہے (جہازیوں کی بغاوت 1946ء) اے رہبرِ ملک و قوم ذرا آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا یہ کس کا لہو ہے کون مرا دھرتی کی سلگتی چھاتی کے بے چین شرارے پوچھتے ہیں تم لوگ جنہیں اپنا نہ سکے وہ خون کے دھارے پوچھتے ہیں سڑکوں کی زباں چلاتی ہے، ساگرکے...
  2. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    [align=right:ff679cb09b]مرے عہد کے حسینو وہ ستارے جن کی خاطر کئی بےقرار صدیاں مری تیرہ بخت دنیا میں ستارہ وار جاگیں کبھی رفعتوں پہ لپکیں، کبھی وسعتوں سے الجھیں کبھی سوگوارسوئیں، کبھی نغمہ بار جاگیں وہ بلند بام تارے وہ فلک مقام تارے وہ نشان دے کے اپنا رہے بے نشاں ہمیشہ وہ حسیں، وہ...
  3. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    غزل اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے آج تک سلگتے ہیں زخم رہگزاروں کے خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں ہم سے پوچھ کر دیکھو، راز پردہ داروں کے گیسووں کی چھاوں میں، دل نواز چہرے ہیں یا حسیں دھندلکوں میں، پھول ہیں بہاروں کے پہلے ہنس کے ملتے ہیں، پھر نظر چراتے ہیں آشنا صفت ہیں...
  4. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    خوبصورت موڑ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کیوں امید رکھوں دلنوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لرکھرائے میری باتوں سے نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیشقدمی سے مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ...
  5. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    غزل بھڑکا رہے ہیں آگ لبِ نغمہ گر سے ہم خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے کیوں دیکھوں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے کچھ خار کم تو کر گئے گزرے...
  6. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    تیری آواز رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے دلِ کو یہ ضد تھی کہ تو آئے تسلی دینے میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آجائے دیر تک آنکھوں میں چھبتی رہی تاروں کی چمک دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کے لیے تو نہ آئی...
  7. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    انتظار چاند مدہم ہے آسماں چپ ہے نیند کی گود میں جہاں چپ ہے دور وادی میں دودھیا بادل جھک کے پربت کو پیار کرتے ہیں دل میں ناکام حسرتیں لے کر ہم ترا انتظار کرتے ہیں ان بہاروں کے سائے میں آجا پھر محبت جواں رہے نہ رہے زندگی تیرے نامرادوں پر! کل تلک مہرباں رہے نہ رہے روز کی طرح آج...
  8. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    غزل ہر قدم مرحلہء دار و صلیب آج بھی ہے جو کبھی تھا وہی انساں کا نصیب آج بھی ہے جگمگاتے ہیں افق پر یہ ستارے لیکن راستہ منزل ہسنتی کا مہیب آج بھی ہے سر مقتل جنہیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے اہل دانش نے جسے امرِ مسلم مان اہلِ دل کے لیے وہ بات عجیب آج...
  9. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    بشرطِ استواری خونِ جمہور میں بھیگے ہوئے پرچم لے کر مجھ سے افراد کی شاہی نے وفا مانگی ہے صبح کے نور پہ تعزیر لگانے کے لیے شب کی سنگین سیاہی نے وفا مانگی ہے اور یہ چاہا ہے کہ میں قافلہء آدم کو ٹوکنے والی نگاہوں کا مددگار بنوں! جس تصور سے چراغاں ہے سر جادہء زیست اس تصور کی ہزیمت کا گنہگار...
  10. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    متاعِ غیر میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی اب تو ہر سانس...
  11. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    آوازِ آدم دبے گی کب تلک آوازِ آدم ہم بھی دیکھیں گے رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے چلو یونہی سہی یہ جورِ پیہم ہم بھی دیکھیں گے درزنداں سے دیکھیں یا عروجِ دار سے دیکھیں تمہیں رسوا سرِ بازارِ عالم ہم بھی دیکھیں گے ذرا دم لو ماآلِ شوکتِ جم، ہم بھی دیکھیں گے یہ زعمِ قوتِ...
  12. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    غزل جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی ازسرِ نو داستانِ شوق دھرائی گئی بک گئے جب تیرے لب پھر تجھ کو کیا شکوہ اگر زندگانی بادہ و ساغر سے بہلائی گئی اے غمِ دنیا! تجھے کیا علم تیرے واسطے کن بہانوں سے طبعیت رہ پر لائی گئی ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی اور اگر ترکِ وفا سے بھی...
  13. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    لہو نذر دے رہی حیات مرے جہاں میں سمن زار ڈھونڈنے والے یہاں بہار نہیں آتشیں بگولے ہیں دھنک کے رنگ نہیں سرمئی فضاوں میں افق سے تابہ اُفق پھانسیوں کے جھولے ہیں پھر ایک منزلِ خونبار کی طرف ہیں رواں وہ رہنما جو کئی بار راہ بھولے ہیں بلند دعویٰ جمہوریت کے پردے میں فروغِ مجلسِ زنداں ہیں...
  14. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    شکستِ زنداں چینی شاعر یانگ سو کے نام جس نے چیانک کائی شیک کے جیل میں لکھا تھا بیس سال قید کاغذ کے ایک پرزے پر لکھے ہوے چند الفاظ کی بنا پر ہو سکتا ہے کہ میں بیس سال تک سورج کی شکل نہ دیکھ سکوں، لیکن کیا تمہارا فرسودہ نظام جو لمحہ بہ لمحہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بیس...
  15. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کردو فریبِ جنتِ فردا کے جال ٹوٹ گئے حیات اپنی امیدوں پہ شرمسار سی ہے چمن میں جشن و درودِ بہار ہو بھی چکا مگر نگاہِ گل و لالہ سوگوار سی ہے فضا میں گرم بگولوں کا رقص جاری ہے افق پہ خون کی مینا چھک رہی ہے ابھی کہاں کامہرِ منور کہاں کی تنویریں کہ بام و در پہ...
  16. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    غزل طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری دلِ زندہ! تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا گزری زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری ہمیں یہ فکر اُن کی انجمن کس حال میں‌ ہوگی انھیں یہ غم کہ اُن سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گزری میرا الحاد تو خیر...
  17. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    آج ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے چاند، تاروں،بہاروں کے سپنے بنے حسن اورعشق کے گیت گاتا رہا آرزوں کے ایواں سجاتا رہا میں تمہارا مغنی تمہارے لیے جب بھی آیا نئے گیت گاتا رہا آج لیکن مرے دامنِ چاک میں گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا تانیں...
  18. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    مفاہمت نشبِ ارض پہ ذروں کو مشتعل پا کر بلندیوں پہ سفید و سیاہ مل ہی گئے جو یادگار تھے باہم ستیزہ کاری کی بہ فیضِ وقت وہ دامن کے چاک سل ہی گئے جہاد ختم ہوا دور آتشی آیا! سنبھل کے بیٹھ گئے محملوں میں دیوانے ہجوم تشنہ لباں کی نگاہ اوجھل چھلک رہے ہیں شراب ہوس کے پیمانے یہ چشن، چشنِ...
  19. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    مادام آپ بے وجہ پریشاں سی کیوں ہیں مادام لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک آداب کے سانچوں میں...
  20. وہاب اعجاز خان

    تلخیاں (ساحر لدھیانوی)

    جاگیر پھر اُسی وادیء شاداب میں لوٹ آیا ہوں جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے شوخ سینے ہیں، جواں جسم حسیں‌بانہیں ہیں سبز کھتوں میں یہ دہکی ہوئی دوشیزائیں ان کی شریانوں میں کس کس کا لہو جاری ہے کس میں جرات ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے سب کے لب پر...
Top